سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
ایک مسئلہ درپیش ہے کہ میت کو دفن کرنے کے بعد قبر پر دعا کرتے وقت سب کے چہروں کے رخ قبلہ کی طرف ہونا ضروری ہے؟یا صرف امام کا رخ کافی ہے؟
سائل: مفتی لقمان صاحب ہالولی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
فقہاء کی عبارات سے تو یہی مترشح ہوتا ہے کہ دعا کے وقت قبروں کی طرف متوجہ نہ ہوا جائے، بلکہ قبلہ رو کھڑے ہو کر دعا کی جائے۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت عبداللہ کی تدفین سے فارغ ہوئے تو آپ نے قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر دعا فرمائی ہے لہٰذا دعا بھی قبلہ رُخ ہو کر کی جائے۔
فتح الباري لابن حجر میں ہے۔
وفي حديث بن مسعود رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم في قبر عبد الله ذي النجادين، الحديث، وفيه فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعاً يديه، أخرجه أبو عوانة في صحيحه۔
فتح الباري لابن حجر(١١/١٤٤)
اور چونکہ فقہاء کی عبارات مطلق ہے اس لئے یہ حکم سب کے لئے ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے۔
وإذا أراد الدعاء يقوم مستقبل القبلة، كذا في خزانة الفتاوى (الفتاوى الهندية ٥/٣٥٠)
مسؤلہ صورت میں یہ حکم سب کے لئے ہوگا اس لئے کہ قبر کی طرف رخ کر کے دعا مانگنے میں صاحبِ قبر سے مانگنے کا شبہ ہو سکتا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ قبر پر جاکر دعا کرنی ہو تو ہاتھ اٹھائے بغیر ہی دعا کرلے، اور اگر ہاتھ اٹھاکر دعا کرنی ہو تو سبھی سب کے لئے یہ افضل ہے کہ قبلہ کی طرف رخ کرکے ہاتھ اٹھاکر دعا کرلی جائے؛ تاکہ قبر یا صاحبِ قبر سے مانگنے کا شبہ نہ ہو، لیکن یہ افضلیت کا مسئلہ ہے اس پر کسی کو تنبیہ کی ضرورت نہیں ہے۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں