سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
حضرت مسئلہ یہ دریافت کرنا ہے کہ کیا عورت کے نام کا بھی پردہ ہے بعض شادی کارڈ پر اپنی بیٹی یالڑکی کا نام نہیں لکھواتے پوچھ نے پر کہتے ہیں کہ عورت کے نام کا بھی پردہ ہوتا ہے اسلئے قرآن میں بھی کسی عورت کا نام نہیں ہے سواۓ حضرت مریم کے ۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیکر ممنون ومشکور ہوں۔
سائل: محمد ارشاد بھوپال
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
شریعت میں پردے سے اصل مطلوب ایسا حجاب ہے جس میں عورت کا وجود ان کی نقل وحرکت اور ظاہر ومخفی زینت کا کوئی حصہ کسی اجنبی مرد کو نظر نہ آئے،
جیسے کہ قرآن کریم کی ان آیات سے واضح ہوتاہے
(۱) وَقَرْنَ فِي بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْأُولَی (احزاب: ۳۳)
(۲) وَإِذَا سَأَلْتُمُوہُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوہُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ (احزاب: ۵۳)
ان آیات سے یہی واضح ہوتاہےہے کہ عورتوں کا کوئی حصہ بدن کسی اجنبی کے سامنے ظاہر نہ ہو،
أحکام القرآن للتھانوی میں ہے۔
وہذہ الآیة تدل علی أن کیفیة الحجاب الشرعي ہو التستر بالبیوت والخدور بحیث لا ینکشف للرجال شيء من أبدانہن وزینتہن․ (۳/٤۰۸ ط: ادارة القرآن کراچی)
البتہ ستر شرعی جو فرض ہے عورت کا پورا بدن ہے سوائے چہرا اور ہتھیلیاں اور پیروں کا وہ حصہ جو ٹخنوں کے نیچے کاہے ان کے علاوہ پورا بدن ستر ہے بغیر کسی اعذار کے اس کو نامحرم کے سامنے ظاہر کرنا جائز نہیں ہے،
فتاویٰ شامی میں ہے۔
وللحرة جمیعُ بدنہا خلا الوجہ والکفین والقدمین علی المعتمد وصوتہا علی الراجح ۔۔۔۔۔۔۔ قولہ علی الراجح عبارة البحر عن الحلیة أنہ الأشبہ وفی النہر وہو الذی ینبغی علیہ اعتمادہ الی قولہ: فانا نجیز الکلامَ مع النساء للأجانب ومحاورتہن عند الحاجة الی ذٰلک، ولا نجیزلہُنَّ رفعَ أصواتہن ولا تمطیطہا ولا تلیینہا وتقطیعہا ؛ لما فی ذٰلک من استمالة الرجال الیہن وتحریک الشہوات منہم، ومن ہٰذا لم یجز أن توٴذن المرأة۔۱ھ (فتاویٰ شامی ٢/ ۷۸-۷۹ ۔ط: زکریا، دیوبند)
صورت مسئولہ میں عورت کے نام کا پردہ نہیں ہے اور یہ نام درج نہ کرنا ان کا غلو ہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے اور قرآن میں حضرت مریم کے علاوہ عورت کا نام نہ آنے کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ قرآن پاک میں ان ہی مردوں کے نام آئے ہیں جو یا تو انبیاء و رسل ہیں یا وہ جن کی ذات کے ساتھ کوئی بڑا واقعہ منسلک ہے،
اور ان مردوں کے ناموں سے اس دور کے سب لوگ مشرکین، یہود و نصاری وغیرہ واقف تھے اسی لئے ان کو سیدھا نام سے پکارا گیا ہے.
مریم علیہا السلام کا نام بھی ان کی ذات کے ساتھ خاص واقعے کی بنا پر آیا ہے،
باقی عورتوں کا نام لئے بغیر ان کی پہچان سے مخاطب کی گیا ہے.
جیسے:
(ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ ۖ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَقِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ)
اب ان کے نام لئے جاتے تو ان کی پہچان شائد ممکن نہ تھی اور احتمال بھی ہو سکتا تھا کہ یہ نام کس کا ہوگا یہ نبی کی بیویاں ہیں، یا اور کوئی خاص جس کو قرآن نے بیان کیا لہذا قرآن نے ان شکوک و شبھات کو دور کرنے لئے ان کو انکی نسبت سے بیان کیا تاکہ تاویلات کے احتمالات ختم ہو جائے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔
البتہ فتاوی بنوریہ میں اس طرح کے سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے کہ قرآن مجید میں حضرت مریم رضی اللہ عنہا کا نام صراحت کے ساتھ مذکور ہونے کی کوئی وجہ قطعی طور پر ذکر نہیں کی جاسکتی ، البتہ اس کی ایک امکانی وجہ یہ ہے کہ : چوں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالی نے بغیر والد کے حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے بطن مبارک سے اپنے حکم سے پیدافرمایاتھا، ان کی پہچان کے لیے ان کی والدہ حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے اسم گرامی کو قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ ذکر فرمایاہو۔
چناں چہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں:''قرآن کریم کے عام احکام میں اگرچہ مرد و عورت دونوں ہی شامل ہیں، مگر عموماً خطاب مردوں کو کیا گیا ہے، عورتیں اس میں ضمناً شامل ہیں ۔ ہر جگہ « یٰآیُّهَا الَّذِینَ اٰمَنُوا »کے الفاظ استعمال فرما کر عورتوں کو ان کے ضمن میں مخاطب کیا گیا ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ: عورتوں کے سب معاملات تستر اور پردہ پوشی پر مبنی ہیں، اس میں ان کا اکرام و اعزاز ہے۔ خصوصاً پورے قرآن میں غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ: حضرت مریم بنت عمران کے سوا کسی عورت کا نام قرآن میں نہیں لیا گیا، بلکہ ذکر آیا تو مردوں کی نسبت کے ساتھ امراۃ فرعون، امراۃ نوح، امراۃ لوط کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حضرت مریم کی خصوصیت شاید یہ ہو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت کسی باپ کی طرف نہ ہو سکتی تھی؛ اس لیے ماں کی طرف نسبت کرنا تھا، اس نسبت کے لیے ان کا نام ظاہر کیا گیا" (فتاوی بنوریہ فتوی نمبر : ١٤٣٩٠١٢٠٠١١٠)
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں