سوال
قبرستان پر جو لکڑی چھوٹے چھوٹے درخت یا جھاڑیاں ہوتی ہیں انکو کاٹ سکتے ہیں یا نہیں اگر کاٹ سکتے ہیں تو کیا انکو بیچ سکتے ہیں یا نہیں اگر بیچ سکتے ہیں تو انکی آمدنی کو کدھر استعمال کرسکتے ہیں؟ امید ہے مدلل جواب دینگے
سائل: عبد الحفیظ چوہان جموں وکشمیر انڈیا
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
قبرستان کی ہری گھاس اور ہرے درخت کاٹنے سے علماء نے منع فرمایا ہے، کیونکہ وہ اللہ تعالی کی حمد و ثناء بیان کرتیں ہے، جس سے اللہ تعالی کی رحمت نازل ہوتی ہے اور مردوں کو اس سے فائدہ حاصل ہوتا ہے، لہذا اگر ان کو کاٹ دیا جائے گا، تو مردے اس فائدے سے محروم رہیں گے، لیکن اگر قبرستان کی صفائی کی ضرورت ہو تو صفائی کے خاطر اس کو کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اسی طرح اگر ضرورت ہو تو ہری بھری گھاس یا درخت بھی کاٹے جاسکتے ہیں البتہ نئے قبروں کی رعایت کرتے ہوئے پھاوڑا یا کدال وغیرہ چلائی جائے۔
کتاب النوازل میں حضرت مفتی سلمان صاحب منصورپوری ایک سوال کے جواب میں رقم طراز ہیں کہ: فقہاء نے قبرستان سے تر گھاس کاٹنے کی کراہت یا علت یہ لکھی ہے: لأنہ ما دام رطبًا یسبح اللّٰہ فیونس المیت۔ (مراقي الفلاح / فصل في زیارۃ القبور ۳۴۲ کراچی)
اِس علت سے معلوم ہوتا ہے کہ کراہت اس صورت میں ہے جب کہ قبر کے اوپر کی اور قبر کے قریب کی گھاس کاٹی جائے؛ کیوںکہ یہی گھاس میت کے لئے انس کا موجب ہوتی ہے، اِس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ ایسا قبرستان جو موقوفہ تو ہو؛ لیکن اُن میں قبریں نہ ہوں، یا اُس کا کوئی حصہ قبروں سے بالکل خالی ہو، تو اُس خالی جگہ کی گھاس کاٹنے میں میت کی قطع استیناس کی علت نہیں پائی جاتی؛ لہٰذا وہ جائز ہونا چاہئے، اِس وضاحت سے یہ معلوم ہوگیا کہ شامی کی عبارت: ’’یکرہ أیضًا قطع النبات الرطب والحشیش من المقبرۃ دون الیابس‘‘ سے ایسا مقبرہ مراد ہے جس میں قبریں قریب قریب ہوں، نفسِ موقوفہ قبرستان مراد نہیں ہے، اِسی وجہ سے فقہ کی دیگر کتابوں میں مقبرہ کے بجائے قبور کا لفظ آیا ہے۔
یکرہ أیضًا قطع النبات الرطب والحشیش من المقبرۃ دون الیابس۔ (شامي، کتاب الصلاۃ / باب صلاۃ الجنائز، مطلب في وضع الجرید ونحو الآس علی القبور ۲؍۲۴۵ کراچی، وکذا في الفتاویٰ التاتارخانیۃ، کتاب الصلاۃ / باب الجنائز، القبر والدفن ۲؍۱۷۳ إدارۃ القرآن کراچی، ۳؍۷۶ رقم: ۳۷۵۱ زکریا)
وکرہ قلع الحشیش الرطب وکذا الشجر من المقبرۃ؛ لأنہ ما دام رطبًا یسبِّح اللّٰہ تعالیٰ فیؤنس المیت وتنزل بذکر اللّٰہ تعالیٰ الرحمۃ، ولا بأس بقلع الیابس منہا أي الحشیش والشجر لزوال المقصود۔ (مراقي الفلاح / فصل في زیارۃ القبور ۳۴۲ کراچی)
قبر کے اوپر یا قریب لگے ہوئے درخت کو کاٹنا بھی عباراتِ فقہیہ میں مکروہ لکھا ہے، ہاں اگر قبرستان کی خالی جگہ میں ایسا درخت ہو تو اُس کے کاٹنے میں کوئی حرج نہ ہوگا، نیز اگر قبرستان کے فائدہ کے لئے اور کسی وجہ سے قبر پر لگے ہوئے درخت کے کاٹنے کی ضرورت ہو تو اِس کی بھی گنجائش دی گئی ہے، مگر بلاضرورت ایسا نہ کیا جائے۔یکرہ قطع ما نبت علی القبور ما دام رطبًا۔ (سراجیۃ ۷۲، نصاب الاحتساب ۸۶ بحوالہ: فتاویٰ رحیمیہ ۵؍۱۰۶، ۷؍۱۲۵ دار الاشاعت کراچی) ( مستفاد کتاب النوازل ١٤/٢٩٨)
فتاوی عالمگیری میں درختوں کے سلسلہ میں اس طرح سے وضاحت کی ہے کہ قبرستان میں جو درخت ہے اس کی دو صورتیں ہے ایک تو یہ کہ یہ درخت اس زمین پر پہلے سے اگے ہوئے ہیں اور پھر اس زمین کو قبرستان کے لئے وقف کردیا گیا۔
اس کی بھی دو صورتیں ہیں
ایک یہ کہ وہ زمیں اس کی اپنی مملوکہ ہے دوسرے وہ بنجر زمین تھی جس کو محلے والوں نے قبرستان کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا ہو۔
اس صورت میں درخت مالک زمین کے ہوں گے اور دوسری صورت میں وہ مباح الاصل ہوں گے۔
دوسرے یہ کہ پہلے اس زمین کو قبرستان کے لئے وقف کردیا گیا بعد میں درخت اگے ہیں۔
اس کی بھی دوصورتیں ہے
ایک درختوں کے اگانے والے کا علم ہوگا کہ یہ کس نے اگائے ہیں یا اگانے والے کا علم نہیں ہوگا۔ اگر علم ہے تو وہ اسی کے ہوں گے اور اگر علم نہیں ہے تو قاضی کی ثواب دید پر ہوگا اگر وہ مناسب سمجھیں تو اس کو کٹوادیں اور اس کی آمدنی قبرستان کی مرمت میں استعمال کریں۔
اب اس کاٹے ہوئے درختوں اور گھاس کو کیا کیا جائے تو اس سلسلہ میں فتاوی دارالعلوم دیوبند میں یہ مرقوم ہے کہ: قبرستان کے درختوں کو فروخت کرکے ان کی قیمت قبرستان کی چہاردیواری اور صفائی وغیرہ میں استعمال کی جائے گی، اگر ان میں صرف کرنے کی ضرورت نہ ہو تو ضرورت مند اموات کی تجہیز وتکفین اسی طرح دیگر اور خیر مثلاً مسجد، مدرسہ کی تعمیر ومرمت وغیرہ میں استعمال کی جاسکتی ہے۔ (مستفاد از فتاوی دارالعلوم: ۱۴/۱۸۲، ۱۸۳، وغیرہ، ط: مکتبہ دارالعلوم، دیوبند)
مسئولہ صورت میں قبروں کو چھوڑ کر قبروں کے ارد گرد کی خراب ہونے والی لکڑی چھوٹے چھوٹے درخت یا جھاڑیاں اور گھاس کو صفائی یا راستہ بنانے کی خاطر کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر قبروں کے اوپر کی گھاس یا چھوٹے چھوٹے درخت اصلاح اور درستگی کے لئے کاٹیں جائے، تو اس کی بھی گنجائش نکل سکتی ہے، باقی اگر قبرستان کی ہری گھاس خشک ہوجائے، یا درخت خوشک ہوکر خراب ہو جائے تو اس کے کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
البتہ ان کی قیمت قبرستان کی چہاردیواری اور صفائی وغیرہ میں استعمال کی جائے گی، اگر ان میں صرف کرنے کی ضرورت نہ ہو تو ضرورت مند اموات کی تجہیز وتکفین اسی طرح دیگر اور خیر مثلاً مسجد، مدرسہ کی تعمیر ومرمت وغیرہ میں استعمال کی جاسکتی ہے۔
فتاوی شامی میں ہے۔
يكره أيضا قطع النبات الرطب والحشيش من المقبرة دون اليابس كما في البحر والدرر وشرح المنية وعلله في الإمداد بأنه ما دام رطبا يسبح الله - تعالى - فيؤنس الميت وتنزل بذكره الرحمة اه ونحوه في الخانية۔ (فتاوی شامی ٣/١۵۵)
فتاوى هنديہ میں ہے۔
مقبرة عليها أشجار عظيمة فهذا على وجهين : إما إن كانت الأشجار نابتة قبل اتخاذ الأرض أو نبتت بعد اتخاذ الأرض مقبرة .ففي الوجه الأول المسألة على قسمين : إما إن كانت الأرض مملوكة لها مالك ، أو كانت مواتا لا مالك لها واتخذها أهل القرية مقبرة ، ففي القسم الأول الأشجار بأصلها على ملك رب الأرض يصنع بالأشجار وأصلها ما شاء ، وفي القسم الثاني الأشجار بأصلها على حالها القديم . وفي الوجه الثاني المسألة على قسمين : إما إن علم لها غارس أو لم يعلم ، ففي القسم الأول كانت للغارس ، وفي القسم الثاني الحكم في ذلك إلى القاضي إن رأى بيعها وصرف ثمنها إلى عمارة المقبرة فله ذلك ، كذا في الواقعات الحسامية۔ (فتاوى هنديہ کتاب الوقف باب الرباطات والمقابر ٢/٤٣۵)
فتاوی خانیہ علی الہندیہ میں ہے۔
وإن نبتت الأشجار فیہا بعد اتخاذ الأرض مقبرة، فإن علم غارسہا کانت للغارس، وإن لم یعلم الغارس فالرأی فیہا للقاضی أن یبیع الأشجار، ویصرف ثمنہا إلی عمارة المقبرة فلہ ذلک، ویکون فی الحکم کأنہا وقف۔ (خانیة علی الہندیة ۳۱۱/۳)
مراقی الفلاح میں ہے۔
وکرہ قلع الحشیش الرطب وکذا الشجر من المقبرة؛ لأنہ ما دام رطبًا یسبِّح اللّٰہ تعالیٰ فیونس المیت وتنزل بذکر اللّٰہ تعالیٰ الرحمة، ولا بأس بقلع الیابس منہا أی الحشیش والشجر لزوال المقصود۔ (مراقی الفلاح / فصل فی زیارة القبور ۳٤۲کراچی)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں