سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب کیا حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو مہندی لگانے کا حکم فرمایا ہے اور کیا ہاتھوں پر مہندی لگانا حدیث سے ثابت ہے؟؟؟
سائل: محمد عبداللہ بن رحیم بخش پاکستانی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
عورتوں کے لیے ہاتھوں اور پیروں میں مہندی لگانا جائز ہے، بلکہ آپ نے عورتوں کے لیے ہاتھوں پر مہندی لگانے کو پسند فرمایا ہے اور مہندی نہ لگانے پر ناپسندیدگی کااظہار فرمایا ہے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک عورت نے پردہ کے پیچھے ہاتھ نکال کر یہ اشارہ کیا کہ اس کے ہاتھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ایک خط ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپناہاتھ کھینچ لیا، اورفرمایا کہ میں نہیں جانتاکہ یہ ہاتھ مرد کا ہے، یاعورت کا؟ اس عورت نے کہا کہ یہ ہاتھ عورت کا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگرتوعورت ہوتی تو اپنے ناخنوں کے رنگ کو بدل دیتی یعنی ان پر مہندی لگاتی، اسی وجہ سے فقہاء نے عورتوں کو مہندی لگانا مستحب اور باعثِ اجر و ثواب لکھاہے، غیرشادی شدہ لڑکیوں کے لیے بھی یہی حکم ہے، البتہ نامحرم کو دکھانے اور فیشن پرست لڑکیوں کی نقّالی اورمشابہت سے احتراز لازم ہے ورنہ گنہگار ہوگی۔
مرقات المفاتیح میں ہے۔
ففي شرعة الإسلام الحناء سنة للنساء، ويكره لغيرهن من الرجال إلا أن يكون لعذر لأنه تشبه بهن اهـ. ومفهومه أن تخلية النساء عن الحناء مطلقا مكروه أيضا لتشبههن بالرجال وهو مكروه۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ٨/٢٧٩ ط: دار الکتاب العلمیہ)
ایضاً
أما خضب الیدین والرجلین فیستحب في حق النساء۔ (مرقاۃ المفاتیح ٨/۳۰٤ تحت رقم: ٤٤۵۲)
سنن ابی داؤد میں ہے۔
عنها قالت: أومت امرأة من وراء ستر بيدها كتاب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقبض النبي صلى الله عليه وسلم يده فقال: «ما أدري أيد رجل أم يد امرأة؟» قالت: بل يد امرأة قال: «لو كنت امرأة لغيرت أظفارك» يعني الحناء۔ (ابی داؤد رقم /٤١٦٦)
الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے۔
وتختصّ المرأة المزوّجة، و المملوكة باستحباب خضب كفّيها وقدميها بالحنّاء أو نحوه في كلّ وقت عدا وقت الإحرام؛ لأنّ الاختضاب زينة ، والزّينة مطلوبة من الزّوجة لزوجها ومن المملوكة لسيّدها، على أن يكون الاختضاب تعميماً، لا تطريفاً ولا نقشاً لأنّ ذلك غير مستحبّ۔ (الموسوعة الفقهية الكويتية۔ ٢/٣٦٦ط: وزارة الأوقاف الشؤن الإسلامية)
فتاوی الہندیۃ میں ہے۔
(۴)ولا ینبغي أن یخضب ید الصبي الذکر ورجلہ۔ ویجوز ذلک للنساء (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الباب العشرون ۵/ ۳۵۹)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں