منگل، 8 مارچ، 2022

غیر مسلم ڈاکٹر سے علاج ومعالجہ کروانا سوال نمبر ٢١٣

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

مفتی صاحب مسئلہ عرض کرنا ھے کہ ایک مسلم خاتون  کے تین سیزر ہوئے اور چوتھے کا دو ماہ کا حمل ساقط ہوا  تو مسلم ڈاکٹر نے اسپیشل غیر مسلم ڈاکٹر کے پاس بھیجا آپریشن کے لئے مسلم خاتون کا جان کا خطرہ تھا دو غیر مسلم ڈاکٹر نے آپریشن کیا اور اصل بات یہ ھے کہ  ڈاکٹر نے  خاتون کی شرم گاہ میں پیشاب کی نلی لگائی تو کیا اس کا گناہ اس خاتون کو ھوگا یا پھر شوہر کو ہوگا یا پھر اس مسلم ڈاکٹر کو ہوگا یا پھر اس کی گنجائش ھے؟ برائے کرم مسئلہ کے حل بتلائے قرآن و  سنت کی روشنی میں   جزاک اللہ

سائل: قاسم مالیگاؤں


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


عورتوں کے لئے مستور اعضاء کے علاج کا شرعی حکم یہ ہے کہ وہ کسی ایسی لیڈی ڈاکٹر سے علاج کرائے،  جو اس فیلڈ کی ماہر ہو اور اگر ان کے مستور اعضاء کے علاج ومعالجہ اور آپریشن وغیرہ کے لئے کوئی خاتون ڈاکٹر میسر نہ ہو، یا میسر تو ہو، لیکن وہ اس علاج کی ماہر نہ ہو، تو ایسی مجبوی کی صورت میں مرد ڈاکٹر سے علاج اور آپریشن وغیرہ کروانے کی گنجائش ہے، کیوں کہ شرعی نقطۂ نظر سے جتنا ہوسکے ضرر کو دور کرنا ضروری ہے۔


فقہی قاعدہ ہے۔

الضرر یدفع بقدر الإمکان۔ (قواعد الفقہ ۸۸ دار الکتاب دیوبند)  یتحمل الضرر الخاص لأجل دفع ضرر العام۔ (الأشباہ والنظائر ۳۱۲ مکتبۃ فقیہ الأمۃ، ۱؍۱۲۱ پاکستان)


لہذا شریعت میں جہاں تک ممکن ہو ضرر کو دور کرنے کا حکم ہے، اب لیڈی ڈاکٹر نہ ہو تو کسی مسلم ڈاکٹر سے علاج کروالیں اور اگر وہ اس فیلڈ کا ماہر نہ ہو تو غیر مسلم ڈاکٹر سے بھی علاج کرواسکتے ہیں، اس سلسلہ میں فقہی قاعدہ یہ ہے کہ جب دوضرر جمع ہوجائے تو اخف کو اختیار کیا جائے گا۔ 


الأشباہ والنظائر میں ہے۔

إذا تعارض مفسدتان روعي أعظمہما ضررًا بإرتکاب أخفہما۔ (الأشباہ والنظائر ۳۱۹ مکتبۃ فقیہ الأمۃ، ۱؍۱۲۳ پاکستان)


لیکن یہ بات بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ خواتین کے لئے نامحرم کے سامنے علاج کی غرض سے متاثرہ بدن کے کھولنے اجازت ضرورت کی وجہ دی ہے، لہذا بقدر ضرورت ہی گنجائش رہے گی، اس لئے اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ ڈاکٹر کے سامنے صرف انہی اعضاء کو کھولا جائے، جن کا کھلا رکھنا علاج کے لئے ضروری ہو، نیز مرد ڈاکٹر کو بھی چاہیے کہ وہ علاج کی غرض سے بقدر ضرورت ہی نامحرم عورت کے جسم کو دیکھے اور چھوئے۔


الأشباہ والنظائر میں ہے۔

من ابتلی ببلیتین وہما متساویتان یأخذ بأیتہما شاء، و إن اختلفا یختار أہونہما؛ لأن مباشرۃ الحرام لا تجوز إلا للضرورۃ، ولا ضرورۃ في حق الزیادۃ۔ (الأشباہ والنظائر ۳۱۹ مکتبۃفقیہ الأمۃ، ۱؍۱۲۳ پاکستان)



مسؤلہ صورت میں چونکہ خود مسلم ڈاکٹر نے ہی آپریشن کے لئے مسلم خاتون کو اسپیشل غیر مسلم ڈاکٹر کے پاس بھیجا ہے اور سوال میں عورت کی جان کے خطرہ کی بھی وضاحت کی ہے لہذا یہ ضرر اس ضرر سے بڑھا ہوا ہے تو اس ڈاکٹر سے علاج کرنے میں اور ضرورت کے وقت شرمگاہ کی طرف دیکھنے اور اس میں نلکی ڈالنے سے تینوں ماخوذ نہیں ہوں گے شریعت نے اس کی گنجائش دی ہے لیکن جہاں شریعت ضرورت کے تحت گنجائش کی وضاحت کریں تو جتنی ضرورت ہو اسی کی مقدار اجازت ہوگی اس سے زائد نہیں۔


فتاوى هندیہ میں ہے۔

ويجوز النظر إلى الفرج للخاتن وللقابلة وللطبيب عند المعالجة ويغض بصره ما استطاع، كذا في السراجية. ... امرأة أصابتها قرحة في موضع لايحل للرجل أن ينظر إليه لايحل أن ينظر إليها لكن تعلم امرأة تداويها، فإن لم يجدوا امرأة تداويها، ولا امرأة تتعلم ذلك إذا علمت وخيف عليها البلاء أو الوجع أو الهلاك، فإنه يستر منها كل شيء إلا موضع تلك القرحة، ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن ذلك الموضع، ولا فرق في هذا بين ذوات المحارم وغيرهن؛ لأن النظر إلى العورة لايحل بسبب المحرمية، كذا في فتاوى قاضي خان۔ (الفتاوى الهندية  ٥/٣٣٠)


فتاوی شامی میں ہے۔

ينظر  الطبيب إلى موضع مرضها بقدر الضرورة إذ الضرورات تتقدر بقدرها ۔۔۔۔۔۔۔ وإن كان في موضع الفرج فينبغي أن يعلم امرأة تداويها فإن لم توجد وخافوا عليها أن تهلك أو صيبها وجع لا تحتمله يستر منها كل شيء إلا موضع العلة ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن موضع الجرح۔ ( الدر المختار مع رد المحتار کتاب الحظر والإباحۃ ، فصل في النظر والمسّ،  ٩/٥٣٣ ط: زکریا) واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: