سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
حضرت میں ایک مسجد میں امامت کرتا ہو اور میری عیال بھی میرے ساتھ ہے اور میرے گہر والوں کا کہنا ہے کہ اپنی بیوی ہمارے پاس چھوڑو خدمت کے لیۓ ہم حلانکہ ان کی خدمت تو ہمارے ذمہ ہے۔ نہ کہ ہماری بیوی کے اپنی مصروفیت کی وجہ سےاور کھانے پینے کی دقت کی وجہ سے چہوڑ نہی پاتے کیا ایسی صورت میں ہم پر کوئی گناہ لازم آئےگا
سائل: محمد جاوید سیہوری
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
نکاح سے آپس کے ملن کو قرآن نے لِّتَسۡكُنُوۡۤا اِلَيۡهَا وَجَعَلَ بَيۡنَكُمۡ مَّوَدَّةً وَّرَحۡمَةً سے تعبیر کیا ہے کہ نکاح کا آپسی میلاپ اس لئے ہے تاکہ تم ان کے پاس جاکر سکون حاصل کرو، اور یہ سکون حاصل کرنا ساتھ میں رہنے سے ہوگا نہ کہ بیوی کو چھوڑ کر جانے میں۔
قرآن میں ہے۔
وَمِنۡ اٰيٰتِهٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَكُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِكُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡكُنُوۡۤا اِلَيۡهَا وَجَعَلَ بَيۡنَكُمۡ مَّوَدَّةً وَّرَحۡمَةً ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوۡمٍ يَّتَفَكَّرُوۡنَ ۞ (سورۂ الروم آیت نمبر ٢١)
ترجمہ:
اور اس کی ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم میں سے بیویاں پیدا کیں، تاکہ تم ان کے پاس جاکر سکون حاصل کرو، اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت کے جذبات رکھ دیے، یقینا اس میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔ (آسان ترجمہ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
اور اگر گھر پہ شوہر کے دوسرے بھائی وغیرہ رہتے ہو یا آتے جاتے رہتے ہو تو چونکہ وہ غیر محرم ہے ایسی صورت میں والدین کے پاس چھوڑ کر جانے میں بےپردگی ہوگی جس کی وجہ سے خود شوہر گنہگار ہوگا، اور اگر ایسا نہیں ہے یعنی گھر پر والدین کے علاوہ کوئی نہیں ہے پھر بھی کسی مجبوری کی وجہ سے شوہر بیوی کو ساتھ رکھنا چاہتا ہے، تو رکھ سکتا ہے۔
اور شوہر کے والدین اس بات کی وجہ سے اپنے لڑکے سے ناراض ہوں کہ وہ اپنی بیوی کو ہمارے کام کے لئے نہیں چھوڑتاہے تو ان کا ناراض ہونا درست نہیں اور نہ ہی شوہر اس کی وجہ سے گناہ اور سزا کا مستحق ہوگا، شوہر پر خود اپنے والدین کی اطاعت اور ان کی خدمت لازم ہے، بیوی پر ساس سسر کی اطاعت لازم نہیں ہے، اس لیے شوہر بیوی کو اپنے والدین کی خدمت کرنے پر نہ چھوڑے تو نہ بیوی گناہگار ہوگی اور نہ شوہر گنہگار ہوگا۔
اور اگر خود بیوی شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہو تو ساس سسر کے پاس رہنا نہیں چاہتی تو بھی اس پر جبر کرنا جائز نہیں ہے اس لئے کہ بیوی شوہر کے ماتحت ہوتی ہے اور بیوی پر شوہر کی اطاعت و خدمت شرعاً لازم ہے، بیوی پر ساس سسر کی اطاعت و خدمت لازم وضروری نہیں ہے، ان کی خدمت و اطاعت نہ کرنے پر گناہ نہ ہوگا،
صورت مسئولہ میں شرعی اعتبار سے عورت پر ساس سسر کی خدمت نہ قضاءً واجب ہے اور نہ دیانتاً، صرف شوہر کی خدمت دیانتاً واجب ہے، اگر شوہر اپنی مصروفیت کی وجہ سے اور کھانے پینے کی دقت کی وجہ سے نہ چھوڑنے پر مجبور ہو جس کی بناپر وہ ان کو والدین کے پاس چھوڑ کر نہیں جاتا تو دونوں میں سے ایک بھی گنہگار نہ ہوں گے۔
فتاوی خانیہ میں ہے۔
فإن کان للرجل والدة أو أخت أو ولد من غیرھا في منزلھا فقالت: صیرني في منزل علیحدة کان لھا ذلک (فتاوی خانیہ بر ہامش ہندیہ ۱/٤۲۸)
ایضا
ولیس علیھا أن تعمل بیدھا شیئاً لزوجھا قضاء من الخبز والطبخ وکنس البیت وغیر ذلک (فتاوی خانیہ بر ہامش ہندیہ قدیم ۱/٤٤۳، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)
در مختار مع شامی میں ہے۔
واجبات الإسلام سبعة: الفطرة ……وخدمة أبویہ والمرأة لزوجھا (در مختار مع شامی ۳/۳۲٧، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)۔ ومرادہ بالواجب ما یعم الواجب دیانة کخدمة المرأة لزوجھا الخ (شامی)
نیز فتاوی دار العلوم دیوبند (١٤/ ۵۲٤، ۵۲۷، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم دیوبند)
اور فتاوی محمودیہ جدید (۱۸/ ۲۱۵،۲١٤، سوال: ۹۰۷۱، مطبوعہ: ادارہٴ صدیق ڈابھیل)
اور کفایت المفتی جدید (۵/٢٣٠، مطبوعہ: مکتبہ دار الاشاعت کراچی)
اور آپ کے مسائل اور ان کا حل جدید تخریج شدہ (٤/ ۳٤٢، ۳٤۳، مطبوعہ: کتب خانہ نعیمیہ دیوبند) اسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں