اتوار، 20 مارچ، 2022

سفر سے لوٹنے کی صورت میں وطن اقامت میں قصر و اتمام کا شرعی حکم سوال نمبر ٢٣٩

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

حضرت مفتی صاحب میں پالنپور سے تڑکیسر پڑھنے آیا ششماہی کے بعد اور واپسی کی نیت سالانہ جلسہ کے بعد تھی تو یہ بات تو معلوم ہے کہ میں مسافر شمار نہیں ہوں گا ، لیکن اسی دوران یعنی جلسہ کے کچھ دنوں پہلے وہاں سے دوسری جگہ سفر شرعی کرکے اسی جگہ واپس آیا تو اب یہاں میں کیا رہوں گا مسافر یا مقیم؟

سائل: محمد ابن رحمۃ اللہ مجادری پالنپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


جس جگہ آدمی محض تعلیم یا ملازمت کی وجہ سے پندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام پذیر ہو، اور وہاں پر اس کی مستقل قیام اور رہائش کی نیت نہ ہو تو وہ جگہ تعلیم یا ملازم کے لیے وطن اصلی کے حکم میں نہیں ہے چاہے وہ شخص وہاں معہ اہل وعیال مقیم ہو یا بغیر اہل وعیال کے  تنہا مقیم ہو، البتہ وہ اس کے لئے وطن اقامت ہوگی اور وطن اقامت مطلق سفر شرعی سے باطل ہوجاتا ہے خواہ اس جگہ دوبارہ واپسی کا ارادہ ہو یا نہ ہو، راجح اور مفتی بہ قول یہی ہے اور کتب فقہ کے متون میں ایسا ہی ہے


صورت مسئولہ میں چونکہ آپ مقیم ہے اور وہ آپ کا وطن اقامت ہے اور وطن اقامت مطلق سفر شرعی سے باطل ہوجاتا ہے خواہ اس جگہ دوبارہ واپسی کا ارادہ ہو یا نہ ہو، لہذا آپ جب بھی اپنے وطن اقامت سے سفر شرعی پر جائیں گے تو اپ کا وطن اقامت باطل ہوجائے گا اور آئندہ اگرپندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام کی نیت سے وہاں پر آتیں ہے تو آپ مقیم ہونگے ورنہ مسافرر ہی رہیں گے۔ آپ ترکیسر میں دوبارہ اقامت کی نیت کرنے پر مقیم ہوں گے ورنہ آپ مسافر رہیں گے۔


بدائع الصنائع میں ہے۔

قولہ:”الوطن الأصلي“: ویسمی بالأھلي ووطن الفطرة والقرار عن القھستاني …… قولہ:”أو توطنہ“:أي: عزم علی القرار فیہ وعدم الارتحال الخ ۔۔۔۔۔ ثم الأوطان ثلاثة: وطن أصلي وھو وطن الإنسان في بلدتہ أو بلدة أخری اتخذھا داراً وتوطن بھا مع أھلہ وولدہ ولیس من قصدہ الارتحال عنھا بل التعیش بھا …… فالوطن الأصلي ینتقض بمثلہ لا غیر، وھو أن یتوطن الإنسان في بلدة أخری وینقل الأھل إلیہا من بلدتہ فیخرج الأول من أن یکون وطناً أصلیاً لہ حتی لو دخل فیہ مسافراً لا تصیر صلاتہ أربعاً (بدائع الصنائع ۱/ ٤۹۷، ٤۹۸، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)


البحر الرائق میں ہے۔

وھذا الوطن - الوطن الأصلي- یبطل بمثلہ لا غیر، وھو أن یتوطن في بلدة أخری وینقل الأھل إلیھا فیخرج الأول من أن یکون وطناً أصلیاً حتی لو دخلہ مسافراً لا یتم ، قیدنا بکونہ انتقل عن الأول بأھلہ ؛لأنہ لو لم ینتقل بھم ولکنہ استحدث أھلاً في بلدة أخری فإن الأول لم یبطل ویتم فیھما … وفی المجتبی: نقل القولین فیما إذا نقل أھلہ ومتاعہ وبقي لہ دور وعقار ثم قال: وھذا جواب واقعة ابتلینا بھا وکثیر من المسلمین المتوطنین فی البلاد ولھم دور وعقار فی القری البعیدة منھا یصیفون بھا بأھلھم ومتاعھم فلابد من حفظھا أنھما وطنان لہ لا یبطل أحدھما بالآخر (البحر الرائق، کتاب الصلاة، باب المسافر ۲/۲۳۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)


شامی میں ہے۔

من خرج من عمارة موضع إقامتہ قاصداً مسیرة ثلاثة أیام ولیالیھا ……صلی الفرض الرباعي رکعتین …حتی یدخل موضع مقامہ أو ینوي إقامہ نصف شھر بموضع صالح لھا فیقصر إن نوی في أقل منہ أو …بموضعین مستقلین (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ۲: ۵۹۹- ٦۰٦)

ایضاً

ویبطل وطن الإقامة بمثلہ وبالوطن الأصلي وبإنشاء السفر، والأصل أن الشیء یبطل بمثلہ وبما فوقہ لا بما دونہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر ۲/ ٦۱٤، ٦۱۵،ط: مکتبة زکریا دیوبند)

مستفاد۔۔۔۔۔

(فتاوی دارالعلوم دیوبند جواب نمبر  ١٦٦٨۵٠)

(فتاوی دارالعلوم دیوبندجواب نمبر  ١۵٧١٣٧)

(امداد المفتین، ص ۳۲۱/ ۳۲۲، سوال: ۲۵۱)

(فتاوی محمودیہ  ٤٩٤ ۷/٤۹۱ - سوال: ۳۵۹۱،  ۳۵۸۸)

(فتاوی رحیمیہ جدید، ۵/۱۷۷، سوال: ۲۲۵)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: