جمعرات، 24 مارچ، 2022

فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کا شرعی حکم سوال نمبر ٢٤٨

 سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کا کیا حکم ہے؟ اس تعلق سے تفصیلی جواب مطلوب ہے

سائل: قاسم مالیگاؤں


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


فرض نمازوں کے بعد دعا کرنا ثابت ہے اور  فرض نمازوں کے بعد کے اوقات حدیث شریف کے مطابق قبولیتِ دعاکے اوقات ہیں، اور جب فرض نماز کے بعد امام اور مقتدی کا دعا کرنا احادیث سے ثابت ہے، تو امام اور مقتدی جب نماز کے بعد دعا کریں گے تو اجتماع کی صورت ضمناً پیدا ہوجاتی ہے، اسی طرح دعا کے آداب میں سے ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کی جائے، اور آں حضرت سے بھی  دعا میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے، 

لہذا فرض نمازوں کے بعدہاتھ اٹھا کر اجتماعی طور پر دعا جائز ہے، نماز کے بعد دعاپر نکیر کرنا یا اسے بدعت کہنا درست نہیں، لیکن اسے سنتِ مستمرہ دائمہ کہنا مشکل ہے، اس بنا پراس کو ضروری اورلازم سمجھ کر کرنا، اورنہ کرنے والوں پرطعن وتشنیع کرنا بھی درست نہیں۔


اس مسئلہ میں اکابر علماءِ کرام نے تفصیلی رسائل تحریر کئے ہیں جن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وصحابہ کا معمول نقل کیا ہے؛ دیکھئے


١۔۔۔ "استحباب الدعوات عقيب الصلوة" مؤلف: حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ.


٢۔۔۔ "النفائس المرغوبة في حكم الدعاء بعد المكتوبة" مؤلف: حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ (مفتی اعظم ہند)


٣۔۔۔ "التحفة المرغوبة في أفضلية الدعاء بعد المكتوبة" مؤلف: حضرت مولانا مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی رحمہ اللہ۔


جن سے امام، مقتدی اور منفرد سب کے واسطے  فرض نماز کے بعد دعا کا سنت ہونا ثابت ہے  اور جب ان  سب کے لیے یہ دعا سنت  ہے توفرائض  کے بعد امام اور مقتدی  جب اس  سنت پر عمل کرتے ہوئے  دعا کریں گے تو ضمنا ً خود بخود اجتماع ہوجائے گا ۔ لیکن  یہ  اجتماع ایک ضمنی چیز ہے  اور جائز ہے اس کے لیے الگ سے صریح  اور مستقل  ثبوت کا طلب ہونا اور ثبوت نہ ملنے  پر اس کو بدعت قراردینا درست نہیں۔


البتہ آج کل مروجہ جو طریقہ ہے کہ امام ومقتدیوں کا ساتھ ساتھ بلند آواز سے دعا کے الفاظ کہنا یہ خلاف سنت ہے بلکہ اس طریقہ کی عادت بنالینا ور اس کو ضروری سمجھنا بدعت ہے، دعا کے لیے افضل یہ ہے کہ سراً کی جائے۔


نماز کے بعد اجتماعی دعاء کے سلسلہ میں ہمارے اکابرین کے کچھ فتاوی پیش خدمت ہے ملاحظہ فرمائیں۔


فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ایک سوال کے جواب میں منقول ہے۔  فرض نماز کے بعد دعا کرنا اور ایسی دعا کا مقبول ہونا احادیث میں وارد ہے جس کا تقاضہ ہے کہ ہرفرض پڑھنے والا اپنی نماز کے بعد دعا کرے اب اگر جماعت سے نماز ادا کی جارہی ہوگی تو ہرایک کے انفراداً دعا کرنے سے اجتماعی ہیئت معلوم ہوگی اس میں مضائقہ نہیں کیونکہ جماعت کی نماز پوری ہوجانے کے بعد امام کے ساتھ مقتدیوں کے اقتداء کا تعلق ختم ہوجاتا ہے، مقتدی اس بات کے پابند نہیں کہ جتنی دیر امام دعا مانگے مقتدی لوگ بھی اس کی اتباع کریں بلکہ مقتدی پہلے بھی ختم کرسکتے ہیں اور امام کے بعد تک بھی مانگ سکتے ہیں۔


(۲) اجتماع کو ضروری سمجھنا اور اس کا اہتمام والتزام کرنا بدعت ہوگا، اکابر کے فتاوی ماننے کے تقاضہ سے دعا کا ترک کرنا کہاں لازم آتا ہے، بلکہ ہرشخض انفراداً دعا کرے جس سے اجتماعی ہیئت بن جائے مضائقہ نہیں یہ نکلتا ہے۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ١٥٩٤٣٦)


اسی طرح ایک اور سوال کے جواب کے آخر میں اس طرح سے وضاحت کی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ سوال میں جہراً دعا کرنا اور امام ومقتدیوں کا ساتھ ساتھ بلند آواز سے دعا کے الفاظ کہنا خلاف سنت بلکہ اس طریقہ کی عادت بنالینا بدعت ہے، دعا کے لیے افضل یہ ہے کہ سراً کی جائے۔ چونکہ امام ومقتدی کے درمیان سلام پھیرنے کے بعد اقتداء کا تعلق ختم ہوجاتا ہے پس مقتدیوں کا دعا میں بھی امام کا تابع بنا رہنا ضروری نہیں ہرشخص اپنے اپنے حساب سے دعا ختم کرکے سنت کی نیت باندھ لے۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ١٥٩٤٣٦)


فتاوی بنوریہ میں ایک سوال کے جواب میں اس طرح سے وضاحت کی ہے۔ فرض نماز کے بعد دعا کرنا ثابت ہے اور  فرض نمازوں کے بعد کے اوقات حدیث شریف کے مطابق قبولیتِ دعاکے اوقات ہیں،  فرائض کے بعد دعا کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اورسلف صالحین سے ثابت ہےاور دعا کے آداب میں سے ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کی جائے  اور آں حضرت ﷺ سے بھی  دعا میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔


'المعجم الکبیر' میں علامہ طبرانی رحمہ اللہ نے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی سے ایک روایت ذکر کی ہے کہ  محمد بن یحیی اسلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے عبد اللہ بن  زبیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا  ،انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ  وہ نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی ہاتھ اٹھا کر دعا کررہا تھا تو جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو  حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب تک نماز سے فارغ نہ ہوتے  اس وقت تک (دعا کے لیے) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ( لہذا تم بھی ایسا ہی کرو)۔


'حدثنا محمد بن أبي يحيى، قال: رأيت عبد الله بن الزبير ورأى رجلاً رافعاً يديه بدعوات قبل أن يفرغ من صلاته، فلما فرغ منها، قال: «إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن يرفع يديه حتى يفرغ من صلاته»۔ (المعجم الكبير للطبرانی ١٣/١٢٩ برقم: 324)


اسی طرح کنزالعمال میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوبندہ نمازکے بعدہاتھ اٹھاکراللہ تعالیٰ سے دعاکرتاہے اورکہتاہے کہ اے میرے معبود....اللہ تعالیٰ اس کی دعا کوضرورقبول فرماتے ہیں ،اسے خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹاتے۔


حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے ارشاد فرمایا: تمہارا رب حیا والا اور کریم ہے، اپنے بندے سے حیا کرتاہے ،جب وہ اپنے ہاتھوں کو اس کے سامنے اٹھاتا ہے کہ ان کو خالی واپس لوٹا دے۔


حضرت مالک بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے ارشاد فرمایا : جب تم اللہ سے دعا کرو تو ہاتھوں  کی ہتھیلیوں  سے کرو، ہاتھوں  کی پشت سے نہ کرو ۔


حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں  ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں  سے سوال کیا کرو اور ہاتھوں  کی پشت سے نہ کرو ،پس جب دعا سے فارغ ہوجاؤ تو  ہاتھوں  کو اپنے چہرے پر پھیر لو ۔


دعا میں  ہاتھ اٹھانا حضور کی عادتِ شریفہ تھی ، حضرت سائب رضی اللہ عنہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں  کہ رسول اللہ جب دعا فرماتے تھے تو اپنے دونوں  ہاتھ مبارک اٹھاتے اور فارغ ہوتے تو ان دونوں  کو اپنے چہرے پر پھیرتے۔


اس طرح کی روایات فرض نمازوں کے بعدہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کے ثبوت و استحباب کے لیے کافی ہیں؛ اس لیے نماز کے بعد دعاپر نکیر کرنا یا اسے بدعت کہنا درست نہیں۔ تاہم اسے سنتِ مستمرہ دائمہ کہنا مشکل ہے، اس بنا پراس کو ضروری اورلازم سمجھ کرکرنا،اورنہ کرنے والوں پرطعن وتشنیع کرنا بھی درست نہیں۔ اور یہ دعا سر اً افضل ہے، البتہ تعلیم کی غرض سے  کبھی کبھار امام  جہراً بھی دعا کرا سکتا ہے۔


حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے ' فیض الباری' میں اور محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری نوراللہ مرقدہ نے اپنے فتاویٰ میں لکھاہے کہ فرائض کے بعد موجودہ ہیئت کے مطابق اجتماعی دعا کرنا سنت مستمرہ تو نہیں ہے، لیکن اس کی اصل ثابت ہے ؛ اس لیے یہ بدعت  نہیں ہے، اسے بدعت کہنا غلو ہے۔ مزید دلائل کے لیے ”النفائس المرغوبة في الدعاء بعد المکتوبة “ مؤلفہ حضرت مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ کا مطالعہ فرمائیں۔ فقط واللہ اعلم۔ (دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن  فتوی نمبر : ١٤٣٩٠٨٢٠٠٣٩٢)

 

اسی طرح کتاب النوازل میں ایک سوال کے جواب میں تحریر فرمایاہے کہ: اَحادیثِ طیبہ میں نمازوں کے بعد جس طریقے سے ذکر و اذکار کی تاکید آئی ہے، وہیں نمازوں کے بعد خاص طور سے دعاؤں کی بھی تلقین وارد ہے، یہی وجہ ہے کہ نمازوں کے بعد کی دعا کو مقبول دعاؤں میں شامل فرمایا ہے اور خود پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام سے نمازوں کے بعد مختلف دعائیں ثابت ہیں، پھر جب سب لوگ نماز کے بعد دعا کریں گے، تو خود بخود اجتماعی کیفیت پیدا ہو جائے گی؛ تاہم اِن دعاؤں کو ہمیشہ جہراً کرنا اور ایسا لازم سمجھنا کہ اس کے بغیر نماز ہی کو نامکمل سمجھا جائے، یہ واقعۃً ثابت نہیں ہے اور ا س کا التزام ممنوع ہے؛ البتہ بیان اور وعظ کے بعد اجتماعی دعا کہ ایک دعا کرلے بقیہ سب آمین کہیں، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص خاص موقعوں پر ثابت ہے ا، س لئے اس کو بدعتِ قبیحہ سے تعبیر کرنا درست نہ ہوگا۔

عن أبي أمامۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قیل: یا رسول اللّٰہ ا! أي الدعاء أسمع؟ قال: جوف اللیل ودبر الصلوات المکتوبۃ۔ (سنن الترمذي ۲؍۱۸۷ رقم: ۳۴۹۹، سنن النسائي رقم: ۹۹۳۶، الترغیب والترہیب مکمل ۳۷۸، رقم: ۲۵۶۷)

عن زید بن أرقم رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ ا کان یقول في دبر الصلاۃ: اللّٰہم أنت ربنا ورب کل شيء أنا شہید أن محمدا عبدک ورسولک، اللّٰہم أنت ربنا ورب کل شيء، أنا شہید أن العباد کلہم إخوۃ، اللّٰہم أنت ربنا ورب کل شيء، اجعلني مخلصا لک دیني وأہلي في الدنیا والآخرۃ یا ذالجلال والإکرام، أسمع و استجب، اللّٰہ أکبر الأکبر۔ (کتاب الدعاء للطبراني ۲۱۲، سنن أبي داؤد رقم: ۱۵۰۸، مسند إمام احمد بن حنبل ۴؍۳۶۹، المعجم الکبیر للطبراني ۵؍۲۳۹)

عن حبیب ابن مسلمۃ الفہري وکان مستجابا … قال للناس سمعت رسول اللّٰہ ا یقول: لا یجتمع ملأ فیدعوا بعضہم ویؤمن سائرہم إلا أجابہم اللّٰہ۔ (المعجم الکبیر للطبراني ۴؍۲۱-۲۲)

عن قیس المدني أن رجلا جاء زید بن ثابت فسأل عن شيء فقال لہ زید علیک بأبي ہریرۃ فینا أنا وأبو ہریرۃ وفلان في المسجد ندعو ونذکر ربنا عزوجل إذ خرج إلینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حتی جلس إلینا فسکتنا فقال: عودوا الذي کنتم فیہ، فقال زید: فدعوت أنا وصاحبي قبل أبي ہریرۃ وجعل النبي ا یؤمن علی دعائنا ثم دعا أبو ہریرۃ، فقال: اللّٰہم إني أسألک بمثل ما سألک صاحبي وأسألک علما لا ینسی، فقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: سبقکما بہا الغلام الدوسي۔ (رواہ الطبراني في الأوسط، مجمع الزوائد ۹؍۲۶۱)

إذا دعانا بالدعاء الماثور جہرًا ومعہ القوم أیضا لیتعلموا الدعاء لا بأس بہ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۵؍۳۱۸، منتخبات نظام الفتاویٰ ۱؍۲۵۷-۲۶۲)

قد راج في کثیر من البلاد الدعاء بہیئۃ اجتماعیۃ رافعین أیدیہم بعد الصلوات المکتوبۃ، ولم یثبت ذلک في عہدہ، وبالأخص بالمواظبۃ، نعم ثبت أدعیۃ کثیرۃ بالتواتر بعد المکتوبۃ، ولکنہا من غیر رفع الأیدي ومن غیر ہیئۃ اجتماعیۃ۔ (معارف السنن ۳؍۴۰۹)

وقد حصل أن الدعاء بہیئۃ الاجتماع دائما لم یکن من فعل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کما لم یکن قولہ واقرارہ۔ (الاعتصام ۱؍۳۵۲)

وبالجملۃ التزامہ کسنۃ مستمرۃ دائمۃ لیشکل أن یکون علیہ دلیل من السنۃ۔ (معارف السنن ۳؍۱۲۴) فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔ (کتاب النوازل ۵/۵٣٨)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


دارالافتاء مرکز اہل السنت والجماعت ، سرگودھا کا مضمون بعنوان کیا فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا ثابت ہے؟ اس کو بھی ملاحظہ فرمائیں۔ 👇👇👇


http://ahnafmedia.com/question-a-answers/item/4466-farz-ky-bad-hath-utha-kr-dua-mangna


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: