پیر، 21 مارچ، 2022

سفر کے دوران قصر کا حکم کب سے ہوگا سوال نمبر ٢٤٢

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب میں آپ کا شاگرد  مستقیم بھیمال ایک سوال تھا کہ نماز قصر کے متعلق

ایک شخص کا گاؤ ہے بھیمال  اور اسکو جانا ہے ڈیسا  اور ڈیسا ٨٠ کلومیٹر ہے اب وہ درمیان میں کسی وجہ سے رک گیا یا نماز کے لیے رکا تو کیا وہ مسافر ہوکر قصر پڑھیگا

مسافر کب مسافر ہوتا ہے اپنا وطن چھوڑنے سے وہ مسافر ہوجاتا ہے۔

سائل: مولوی مستقیم بھیمال


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


جب کوئی شخص ٤٨ میل کی دوری یا اس سے زیادہ کا ارادہ کرکے نکلے تو وہ مسافر شرعی ہوجاتا ہے۔ نئے پیمانے سے (٧٧.٢٥۔۔ سوا ستتر) کلومیٹر مسافت شرعی ہے، اگر کوئی آدمی(٧٧.٢٥۔۔ سوا ستتر) کلو میٹر صرف جانے کے اعتبار سے یا اس سے زیادہ مسافت کے ارادے سے سفر کے لیے نکلے، تو اس پر سفر کے احکامات شروع ہوتے ہے اور اگر اس سے کم کی نیت سے سفر کا ارادہ ہو تو قصر جائز نہیں ہے۔

جب وہ مسلسل مسافت شرعی کے ارادے سے نکل چکاہے اور درمیان میں رکنے کا ارادہ نہیں ہے، تو اب جب تک کسی جگہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ رکنے کا ارادہ نہ کریں وہ مسافر ہی شمار ہوگا اور وہ قصر کرتا رہے گا۔


لہذا جب تک اپنے وطنِ اصلی ( جہاں اس کی رہائش ہے) کی آبادی کی حدود میں داخل نہیں ہوجاتا، یا کسی جگہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ رکنے کی نیت نہیں کرتا اس وقت تک قصر نماز ہی ادا کرے گا۔


اسی طرح مسافر گاؤں میں رہتا ہو، اور وہ گاؤں شہر سے الگ ہے، شہر میں اس کا شمار نہیں ہوتا تو ایسی صورت میں اگر وہ سفر شرعی کے ارادے سے گاؤں کی حدود سے نکلے گا تو وہ مسافر کے حکم میں ہوجائے گا اب وہ قصر کرے گا، اس کے لئے اتمام جائز نہیں ہے، اسی طرح واپسی میں گاؤں کی حدود میں پہونچنے کے بعد اتمام کریگا۔


فتویٰ قاسمیہ ٨/٥٨٥ میں ایک سوال کے جواب میں لکھا ہےکہ:

سفر شرعی کی نیت سے اپنے گاؤں سے باہر نکلتے ہی قصر کا حکم لگ جاتا ہے، شہر سے تجاوز کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس میں شہر کا کوئی تعلق نہیں؛ بلکہ صرف اپنی بستی اور آبادی ہی کا اعتبار ہوتا ہے؛ لہٰذا واپسی میں بھی شہر میں پہنچنے سے قصر کا حکم ختم نہ ہوگا، جب تک کہ اپنی بستی کی آبادی میں داخل نہ ہوجائے۔


فتاوی شامی میں ہے

فیقصر إن نوی الإقامة في أقل منہ أي: في نصف شہر إھ۔ (فتاوی شامی کتاب الصلاة باب المسافر: ٢/٦٠٦) 


ہدایہ میں ہے۔

وان نوی الاقامۃ اقل من خمسۃ عشریوماً قصر ہکذا فی الہدایۃ ۔۔۔۔۔۔ ولایزال علی حکم السفر حتی ینوی الاقامۃ فی بلدۃ أوقریۃ خمسۃ عشر یوما أو اکثر کذا فی الھدایۃ ۔ (ہدایہ کتاب الصلوۃ، الباب الخامس عشرہ فی صلاۃ المسافر)


مصنف عبدالرزاق میں ہے۔

عن ابن عمر -رضي اﷲ عنہ- أنہ کان یقصر الصلاۃ حین یخرج من بیوت المدینۃ، ویقصر إذا رجع حتی یدخل بیوتہا۔(مصنف عبدالرزاق، باب المسافر متی یقصر إذا خرج مسافرا؟ المجلس العلمي ۲/ ۵۳۰، رقم: ۴۳۲۳)


مصنف عبدالرزاق میں ہے۔

عن أبي حرب بن أبي الأسود الدیلمي أن علیا لما خرج إلی البصرۃ رأی خصا، فقال: لو لا ہذا الخص لصلینا رکعتین، فقلت: ما خصا؟ قال: بیت من قصب۔ (مصنف عبدالرزاق، باب المسافر متی یقصر إذا خرج مسافرا؟ المجلس العلمي ۲/ ۵۲۹، رقم: ۴۳۱۹)


فتاوی شامی میں ہے۔

من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ قاصدا۔ (تنویر الأبصار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، کراچی ۲/ ۲۲۱، زکریا ۲/ ۵۹۹)


البحر الرائق میں ہے۔

وکذا إذا عاد من سفرہ إلی مصر لم یتم حتی یدخل العمران۔ (البحر الرائق، کتاب الصلاۃ، باب المسافر، زکریا ۲/ ۲۲۶، کوئٹہ ۲/ ۱۲۸، کبیري صلاۃ المسافر، أشرفیہ ۵۳۹)


البحر الرائق میں ہے۔

(قوله من جاوز بيوت مصره مريدا سيرا وسطا ثلاثة أيام في بر أو بحر أو جبل قصر الفرض الرباعي) بيان للموضع الذي يبتدأ فيه القصر ولشرط القصر ومدته وحكمه أما الأول فهو مجاوزة بيوت المصر لما صح عنه عليه السلام أنه قصر العصر بذي الحليفة» وعن علي أنه خرج من البصرة فصلى الظهر أربعا ثم قال: إنا لو جاوزنا هذا الخص لصلينا ركعتين والخص بالخاء المعجمة والصاد المهملة بيت من قصب كذا ضبطه في السراج الوهاج۔ (باب صلاة المسافر، ٢/١٣٨ الناشر: دار الكتاب الإسلامي)


کذا فی حاشية الطحطاوي:

ولا يزال المسافر الذي استحكم سفره بمضي ثلاثة أيام مسافراً يقصر حتى يدخل مصره۔(حاشية الطحطاوي ص: ٤٢٥)


مبسوط سرخسي میں ہے۔

فإذا قصد مسيرة ثلاثة أيام قصر الصلاة حين تخلف عمران المصر؛ لأنه مادام في المصر فهو ناوي السفر لا مسافر، فإذا جاوز عمران المصر صار مسافراً؛ لاقتران النية بعمل السفر۔ (المبسوط للسرخسي ١/٢٣٦ ط: دار المعرفة)


بدائع الصنائع میں ہے۔

وأما بيان ما يصير به المقيم مسافراً: فالذي يصير المقيم به مسافراً نية مدة السفر والخروج من عمران المصر فلا بد من اعتبار ثلاثة أشياء: ... والثالث: الخروج من عمران المصر فلايصير مسافراً بمجرد نية السفر ما لم يخرج من عمران المصر۔ (بدائع الصنائع: (١/٩٣ ط: دار الکتب العلمیة)۔ واللہ اعلم بالصواب


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا


کوئی تبصرے نہیں: