سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مسلۂ ذیل کے بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر قبرستان میں کوئی تکلیف دینے والا جانور دیکھ جاوے تو اسکو مارنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ صورتِ مسئلہ میں دن یا رات کی کوئی قید ہے؟ جواب ارسال فرما کے شکریہ کا موقع فراہم فرمائے۔
سائل مولانا منہاج پالنپوری گجرات
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
احادیثِ مبارکہ میں جن موذی جانوروں کو قتل کرنے کی صراحت کے ساتھ اجازت ہے ان میں سے ایک سانپ بھی ہے، اور جب سانپ ایک موذی جانور ہے اور اس کو مارنے کا شریعت نے حکم دیا ہے تو اس کو کسی بھی وقت اور جس جگہ پر ہو مارنا جائز ہے۔
شریعت نے جن جانوروں کوصراحت سے مرنے کی اجازت دی ہے وہ یہ ہیں۔ چھپکلی، چوہا، بچھو، سانپ، چیل، کوا اور کتا اس لئے کہ ان کی فطرت تکلیف پہنچانا ہے، ان کو سامنے رکھتے ہوئے فقہائے کرام نے ان کے علاوہ دوسرے بعض موذی جانوروں اور حشرات الارض کو بھی علتِ ایذاء کی وجہ سے اسی حکم میں داخل کیا ہے۔
لہذا جو جانور طبعی طور پر موذی ہوں اور تکلیف پہنچانے میں عموماً ابتدا کرتے ہوں، انہیں قتل کرنا ہر حال میں جائز ہے، حتیٰ کہ حالتِ احرام میں بھی انہیں قتل کرنے سے محرم پر کوئی دم وغیرہ نہیں آتا، جیسے: شیر، بھیڑیا، تیندوا، چیتا، وغیرہ۔ اور جو جانور تکلیف پہنچانے میں ابتدا نہیں کرتے، جیسے: گوہ، لومڑی، وغیرہ، وہ جب کسی پر حملہ کریں تو ان کی ایذا سے بچنے کے لیے انہیں قتل کرنا جائز ہے۔
البتہ سانپ کے سلسلہ میں احادیث مبارکہ میں یہ صراحت ملتی ہے کہ سانپ کی شکل میں دوسری مخلوق بھی ہوسکتی ہے اسی وجہ سے حدیث میں اس کو مارنے سے پہلے تین بار متنبہ کرنے کا حکم دیاہے، متنبہ کرنے کے بعد اس کو مارنے کا حکم ہے، اور چونکہ قبرستان میں دوسری مخلوقات کا زیادہ امکان ہے اس لئے وہاں پر متنبہ کئے بغیر مارنا مناسب نہیں ہے ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی اور مخلوق ہو اور ہم بلاوجہ اس کو مارکر پریشانی میں مبتلاء ہو لہذا قبرستان میں دن ہو رات ہو مارنے کی کوئی تخصیص نہیں ہے البتہ اس کو مانے سے پہلے تین بار متنبہ ضرور کیاجائے اس کے بعد مارا جائے۔
متفرق کتب احادیث میں ہے۔
عن أبي سعيد الخدري عن أبي السّائبِ قال: أتيتُ أبا سعيدٍ الخدريَّ، فبينا أنا جالسٌ عنده سمعتُ تحت سريرِه تحريكَ شيءٍ فنظرتُ فإذا حيةٌ، فقمتُ. فقال أبو سعيدٍ: ما لك! قلتُ حيةٌ هاهنا، قال: فتريدُ ماذا؟ قلتُ: أقتُلُها، فأشار إلى بيتٍ في دارِه تلقاءَ بيتِه فقال: إن ابنَ عمٍّ لي كان في هذا البيتِ فلما كان يومُ الأحزابِ استأذن إلى أهلِه وكان حديثُ عهدٍ بعُرسٍ فأذِنَ له رسولُ اللهِ وأمرَه أن يذهبَ بسلاحِه فأتى دارَه فوجد امرأتَه قائمةً على بابِ البيتِ فأشار إليها بالرُّمحِ، فقالت: لا تعجلْ حتى تنظُرَ ما أخرجني، فدخلَ البيت فإذا حيةٌ مُنكَرَةٌ فطعنها بالرُّمحِ ثم خرج بها في الرُّمحِ تَرتَكِضُ، قال: فلا أدري أيُهُما كان أسرعَ موتًا الرجلُ أو الحيةُ؟ فأتى قومُه رسولَ اللهِ فقالوا: ادعُ اللهُ أن يردَّ صاحبنا فقال: استغفروا لصاحِبِكم. ثم قال: إن نفرًا من الجنِّ أسلموا بالمدينةِ، فإذا رأيتُم أحدًا منهم فَحَذَِّروه ثلاثَ مراتٍ، ثم إن بدا لكم بعدُ أن تقتلوه فاقتلوه بعدَ الثلاثِ۔ (صحيح ابن حبان ٦١٥٧ أخرجه في صحيحه، صحيح أبي داود ٥٢٥٧ حسن صحيح أخرجه مسلم (٢٢٣٦)، وأبو داود (٥٢٥٧) واللفظ له، والنسائي في السنن الكبرى (٨٨٧١)، وامام أحمد فی مسندہ (١١٣٦٩)
بخاری شریف میں ہے۔
عن عائشة رضي الله عنها، عن النبي صلى الله عليه و سلم، قال خمس فواسق، يقتلن في الحرم: الفأرة، و العقرب، و الحدأۃ، و الغراب، و الكلب العقور۔ (صحيح البخاري ٤/١٢٩ ط: دار طوق النجاة):
فتاوی شامی اور البحر الرائق میں ہے۔
(ﻗﻮﻟﻪ ﻻ ﻗﺘﻞ اﻟﺤﻴﺔ ﻭاﻟﻌﻘﺮﺏ) ﺃﻱ ﻻ ﻳﻜﺮﻩ ﻗﺘﻠﻬﻤﺎ ﻟﺤﺪﻳﺚ اﻟﺼﺤﻴﺤﻴﻦ اﻗﺘﻠﻮا اﻷﺳﻮﺩﻳﻦ ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺓ اﻟﺤﻴﺔ ﻭاﻟﻌﻘﺮﺏ ﻭﻓﻲ ﺻﺤﻴﺢ ﻣﺴﻠﻢ ﻣﺮﻓﻮﻋﺎ ﺃﻣﺮ - ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺼﻼﺓ ﻭاﻟﺴﻼﻡ - ﺑﻘﺘﻞ اﻟﻜﻠﺐ اﻟﻌﻘﻮﺭ ﻭاﻟﺤﻴﺔ ﻭاﻟﻌﻘﺮﺏ ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺓ ﻭﺃﻗﻞ ﻣﺮاﺗﺐ اﻷﻣﺮ اﻹﺑﺎﺣﺔ۔(باب مایفسد الصلاة و مایکرہ فیھا ، البحر الرائق ٢/٥٣ — فتاوی شامی ٢/٤٢١ )
فتاوی عالمگیری میں ہے۔
ﻗﺘﻞ اﻟﻌﻘﺮﺏ ﻭاﻟﺤﻴﺔ ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺓ ﻻ ﻳﻔﺴﺪ اﻟﺼﻼﺓ ﺳﻮاء ﺣﺼﻞ ﺑﻀﺮﺑﺔ ﺃﻭ ﺑﻀﺮﺑﺎﺕ ﻭﻫﻮ اﻷﻇﻬﺮ ﻭﻓﻲ ﻣﺠﻤﻮﻉ اﻟﻨﻮاﺯﻝ ﻓﺈﻥ ﻭﻗﻊ ﻫﺬا ﻟﻠﻤﻘﺘﺪﻱ ﻓﺄﺧﺬ اﻟﻨﻌﻞ ﺑﻴﺪﻩ ﻭﻣﺸﻰ ﺇﻟﻴﻪ ﻻ ﺗﻔﺴﺪ ﻭﺇﻥ ﺻﺎﺭ ﻗﺪاﻡ اﻹﻣﺎﻡ. ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﺨﻼﺻﺔ ﻭﻳﺴﺘﻮﻱ ﻓﻴﻪ ﺟﻤﻴﻊ ﺃﻧﻮاﻉ اﻟﺤﻴﺎﺕ ﻫﻮ اﻟﺼﺤﻴﺢ. ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﻬﺪاﻳﺔ ﻭﺇﻧﻤﺎ ﻳﺒﺎﺡ ﻗﺘﻞ اﻟﺤﻴﺔ ﺃﻭ اﻟﻌﻘﺮﺏ ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺓ ﺇﺫا ﻣﺮ ﺑﻴﻦ ﻳﺪﻳﻪ ﻭﺧﺎﻑ ﺃﻥ ﻳﺆﺫﻳﻪ ﻓﺄﻣﺎ ﺇﺫا ﻛﺎﻥ ﻻ ﻳﺨﺎﻑ اﻷﺫﻯ ﻓﻴﻜﺮﻩ. ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﻤﺤﻴﻂ. (اﻟﺒﺎﺏ اﻟﺴﺎﺑﻊ ﻓﻴﻤﺎ ﻳﻔﺴﺪ اﻟﺼﻼﺓ ﻭﻣﺎ ﻳﻜﺮﻩ ﻓﻴﻬﺎ، ١/١٠٣ ط: دار الفکر)
مبسوط سرخسي میں ہے۔
(قال) محرم قتل سبعا فإن كان السبع هو الذي ابتدأه فآذاه فلا شيء عليه، و الحاصل أن نقول ما استثناه رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من المؤذيات بقوله خمس من الفواسق يقتلن في الحل و الحرم ، و في حديث آخر يقتل المحرم الحية، و الفأرة، و العقرب، و الحدأة، و الكلب العقور فلا شيء على المحرم، و لا على الحلال في الحرم بقتل هذه الخمس لأن قتل هذه الأشياء مباح مطلقا، و هذا البيان من رسول الله صلى الله عليه وسلم كالملحق بنص القرآن فلا يكون موجبا للجزاء، و المراد من الكلب العقور الذئب فأما سوى الخمس من السباع التي لا يؤكل لحمها إذا قتل المحرم منها شيئا ابتداء فعليه جزاؤه عندنا، و قال الشافعي - رحمه الله تعالى - لا شيء عليه لأن النبي - صلى الله عليه و سلم - إنما استثنى الخمس لأن من طبعها الأذى فكل ما يكون من طبعه الأذى فهو بمنزلة الخمس مستثنى من نص التحريم فصار كأن الله تعالى قال لا تقتلوا من الصيود غير المؤذي۔ (المبسوط للسرخسي ٤/٩٠ ط: دار المعرفة - بيروت)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں