پیر، 14 مارچ، 2022

جان کا خطرہ ہو توبچے دانی کو بند کروانا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٢٢۵

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

حضرت یہ معلوم کرنا ہے کی اگر کسی عورت کے تین بچے آپریشن سے ہوئے ہیں اور ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اگر اب کی بار حمل ٹھہرا اور بچا آپریشن سے ہوا تو عورت کی جان کو بڑا خطرہ ہے تو کیا ایسی صورت میں بچے دانی کو بند کروا سکتے ہیں۔۔۔یا نھیں یاپھر کیاصورت اختیار کی جاۓ؟

سائل: ابو معاذ جمالی ہریدوار


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


ولادت کی صلاحیت ختم کرنے کی دو شکل ہوتی ہے

(۱) کلی طور پر قوت ولادت ختم کردی جائے جس کو نس بندی سے تعبیر کرتے ہیں،


اسلام میں بغیر کسی شرعی عذر کے ہمیشہ کے لیے بندش کا آپریشن کرانا اسی طرح ایسا کوئی طریقہ اختیار کرنا جس کی وجہ سے عورت میں مستقل طور پر افزائش نسل کی صلاحیت ختم ہوجائے ناجائز اور حرام ہے، اس لیے کہ یہ عمل تغییر لخلق اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کی بناوٹ میں تبدیلی کرنے کی حرمت میں داخل ہے، جس میں آپریشن کے ذریعہ بچے دانی کو بند کردی جاتیں ہیں جس کی وجہ سے حمل ٹھہرنا مکمل طور پر بند ہوجاتا ہے۔


الا یہ کہ بچہ دانی سڑ جائے یا کینسر ہوجائے یا اور ایسا شدید عذر ہو جس سے جان کا خطرہ لاحق ہو تو اھون البلیتین پر عمل کرتے ہوئے رحم نکالنا جائز ہوگا، اس کے علاوہ کسی بھی عذر میں دائمی نس بندی یا بچہ دانی نکلوانا جائز نہیں۔


آپ کے مسائل اور ان کا حل میں یہ مسئلہ درج ہے کہ نس بندی کرانا جائز نہیں ہے، البتہ اگر کوئی مسلمان ماہر ڈاکٹر یہ تجویز کردے کہ نس بندی کرائے بغیر استقرار حمل کی صورت میں عورت کی جان بچنے کی کوئی دوسری شکل نہیں ہے تو ایسی اضطراری حالت میں نس بندی کرانے کی گنجائش ہے۔ الضرورات تبیح المحظورات (آپ کے مسائل اور ان کا حل: ۸/۴۷۹، ط: نعیمیہ دیوبند)


(۲) صلاحیت تولید تو باقی رہے مگر ایسی صورت اختیار کی جائے جس سے ولادت نہ ہوسکے، یعنی منع حمل کی ایسی تدابیر اختیار کرنا جس میں صلاحیت تو باقی رہے مگر اولاد کا امکان نہ ہو، مثلاً: نرودھ لوپ کا استعمال کرکے رحم میں نطفہ نہ پہنچنے دیا جائے، یا دوران صحبت کنڈوم کا استعمال کرنا استقرار حمل سے مانع ادویات کا استعمال کرنا، یا ایسے خاص ایام میں بیوی سے صحبت کی جائے جس میں طبی تحقیق کے مطابق حمل ٹھہرنے امکان نہ ہو، وغیرہ وغیرہ۔


اس دوسری صورت کی شبیہ قرون اولیٰ میں عزل کی صورت میں اختیار کی جاتی تھی، لیکن احادیث پر نظر کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت عزل کرنا مختلف اغراض کے تحت ہوتا تھا: مثلاً: باندی سے اولاد نہ ہو تاکہ گھر کے کام کاج میں پریشانی نہ ہو، یا باندی ام ولد نہ بن جائے ورنہ اس کو فروخت کرنا جائز نہ ہوگا، زمانہٴ رضاعت میں حمل ٹھہرنے نہ پائے تاکہ شیرخوار بچہ کی صحت متأثر نہ ہو، صحابہٴ کرام کا کوئی غیرشرعی یا ناجائز عمل پیش نظر نہ تھا، اس لیے آپ نے ان کو اس سے منع نہیں فرمایا، اگر عزل کرنے والے کا مقصد کوئی ناجائز امر یا نصوص شرعیہ کے خلاف کام ہوتا تو آپ اس سے ضرور منع فرماتے۔


صورتِ مسئولہ میں اگر ماہر تجربہ کار ڈاکٹر یہ کہیں کہ مذکور فی السوال خاتون مزید ولادت کی بالکل متحمل نہیں ہے؛ بلکہ آئندہ حمل ٹھہرنے اور ولادت کی صورت میں ماں یا بچہ کی جان جاسکتی ہے تو اس انتہائی مجبوری میں اھون البلیتین اور الضرورات تبیح المحظورات کے قاعدے کے تحت بچہ نہ ہونے کا آپریشن کرانے کی گنجائش ہے۔


بدائع الصنائع میں ہے۔

أما السبب فہو تفویت المنفعۃ المقصودۃ من العضو علی الکمال وذٰلک فی الأصل بأحد أمرین: إبانۃ العضو و إذہاب معنی العضو مع بقاء العضو صورۃ۔ (بدائع الصنائع، فصل فی الجنایۃ فیما دون النفس بالسلاح زکریا ٦/۳۹۲)


فتاوی شامی میں ہے۔

وقال الشامی: أخذ فی النہر من ہذا: ولما قدمہ الشارح عن الخانیۃ والکمال: أنہ یجوز لہا سد فم رحمہا کما تفعلہ النساء لما بحثہ فی البحر من أنہ ینبغی أن یکون حراما بغیر إذن الزوج قیاسا علی عزلہ بغیر إذنہا۔ (رد المحتار، مطلب فی حکم إسقاط الحمل زکریا ٤/۳۳٦)


حاشیة البجیرمی علی الخطیب میں ہے۔

یحرم استعمال ما یقطع الحبل من أصلہ کماصرح بہ کثیرون وھو ظاھر(حاشیة البجیرمی علی الخطیب ، کتاب النکاح، فصل فی العدد، ٤/۳۹۲، ط:دار الکتب العلمیة بیروت نقلاً عن ابن حجر المکي رح)


البحر الرائق میں ہے۔

أفادوضع المسألة أن العزل جائز بالإذن وھذا ھو الصحیح عند عامة العلماء لما فی البخاري عن جابر(رض) کنا نعزل والقرآن ینزل،الخ (البحر الرائق ٣/۳٤۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند)


فتاوی شامی میں ہے۔

فإذا فلا کراھة فی العزل عند عامة العلماء وھو الصحیح وبذلک تظافرت الأخبار ،وفی الفتح: وفي بعض أجوبة المشایخ: الکراھة وفي بعض عدمھا، نھر الخ (رد المحتار،کتاب النکاح، باب نکاح الرقیق ٤/۳۳۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند)


الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ میں ہے۔

وقال ابن حجر في الفتح نقلا عن الطبري: لا يجوز للمرأة تغيير شيء من خلقتها التي خلقها الله عليها بزيادة أو نقص۔ (١١/٢٧٤ ط: دار السلاسل) واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: