سوال
زکوۃ ساڑے سات تولہ سونے پر ہے اگر ساڑے سات تولہ سے آدھ تولہ بھی اوپر ہو تو کیا زکوٰۃ پورے آٹھ تولہ کی نکالنی پڑے گی یا صرف اسکی جو نصاب سے زیادہ ہو؟ اسی طرح درمیان سال میں جو مال حاصل ہو اس کی زکوۃ کا کیا حکم ہے؟ اور اگر ساڑے سات تولہ سونے سے کم ہو تو اس پر زکوۃ آئے گی یا نہیں؟ اور ایک سے زائد مال نصاب ہونے کی صورت میں چاندی کے نصاب کو معیار کیون بنایا گیا ہے؟ اور مال مستفاد کے زکوۃ کا کیا حکم ہے؟
سائل: عبد الحفیظ چوہان جموں وکشمیر انڈیا
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
سب سے پہلے یہ بات سمجھئے کہ وجوب زکوۃ کا معیار نصاب ہے لہذا جس کے پاس نصاب زکوۃ ہے تو اس پر زکوۃ واجب ہوگی اور جب نصاب ثابت ہوگیا تو اب اس کے پاس جتنی بھی رقم زائد ہوگی ان سب کو اصل نصاب سے ملا کر زکوۃ نکالنا ضروری ہوگا اب اگر کسی کے پاس صرف سونا ہے اس کے علاوہ کوئی اور مال نہیں ہے (چاندی، نقد رقم اور مالِ تجارت میں سے) تو سونے کی زکاۃ کا نصاب ساڑھے سات تولہ یعنی (۸۷/٤٨ 87.48 گرام) سے کم ہے تو اس میں زکوۃ واجب نہیں ہے۔
لیکن اگر سونے کے ساتھ کوئی اور قابلِ زکوۃ مال موجود ہو، تو پھر صرف سونے کے نصاب کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، بلکہ ایسی صورت میں چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی) کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا، لہٰذا اگر سونے اور دوسرے قابلِ زکوۃ مال کو ملا کر مجموعی قیمت ساڑے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہوجائے تو اس پر زکاۃ واجب ہوجائے گی۔
اور ایک سے زیادہ مال جمع ہونے کی صورت میں چاندی کے نصاب کا اعتبار اس لیے کیا گیا کہ زکاۃ کے وجوب میں فقراء کی حاجت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، جس میں فقراء کا فائدہ ہو فقہاء کرام نے اس کو اختیار کیا ہے، اور موجودہ دور میں چاندی کا نصاب کم ہے، لہٰذا زکاۃ واجب ہونے کی صورت میں فقراء کا فائدہ ہوگا۔
اور نصاب سے زائد ہونے کی صورت میں زائد رقم پر بھی زکوۃ لازم ہوگی اس پر الگ سے سال کا گزرنا ضروری نہیں ہے اسی طرح مال مستفاد یعنی درمیان سال میں جو مال حاصل ہوا ہے اس کو بھی اسی نصاب سے ملا کر زکوۃ لازم ہوگی لہذا مز کی ( زکوۃ دینے والا اپنی زکوۃ دینے کی تاریخ اور مہینہ متعین کر لے اسکے بعد سال کے درمیان جتنا بھی مال حاصل ہوتا رہے سونا چاندی یا نقد رقم سے یا مال تجارت سے ان سب کو ملا کر زکوۃ اپنی متعینہ تاریخ میں نکالے گا ۔
الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے۔
ذهب الجمهور ( الحنفية والمالكية وهو رواية عن أحمد وقول الثوري والأوزاعي ) إلى أن الذهب والفضة يضم أحدهما إلى الآخر في تكميل النصاب ، فلو كان عنده خمسة عشر مثقالا من الذهب ، ومائة وخمسون درهما ، فعليه الزكاة فيهما ، وكذا إن كان عنده من أحدهما نصاب ۔۔۔۔۔۔ ومن الآخر مالا يبلغ النصاب يزكيان جميعا ، واستدلوا بأن نفعهما متحد ، من حيث إنهما ثمنان ….. أما العروض فتضم قيمتها إلى الذهب أو الفضة ويكمل بها نصاب كل منهما . قال ابن قدامة : لا نعلم في ذلك خلافا . وفي هذا المعنى العملة النقدية المتداولة۔ (الموسوعة الفقهية الكويتية ٢٣/٢٦٧)
فتاوی عالمگیری میں ہے۔
عالمگیری میں ہے ومن كان له نصاب فاستفاد في اثناء الحول مالا من جنسه ضمه الى ماله وزكـاه المستفاد من نمائه اولا وبأى وجه استفاد ضمہ۔ (فتاوی عالمگیری ١/١٧٥)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں