سوال
السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
زید کا انتقال آج شام٣بجےہوا جنازہ کل صبح ٨ بجے لے جانا ہے تو غسل میت کو کب دینا چاہیے؟ مسنون طریقہ کیا ہے؟
سائل: ابو عبداللہ ہریدوار
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
جب کسی کی موت کا یقین ہوجائے تواس کی تجہیز وتکفن اور تدفین میں جلدی کرنا مسنون ہے، شرعی عذر یا قانونی مجبوری کے بغیر تاخیر کرنا خواہ کسی بھی مقصد کے لیے ہو مکروہ ہے، اس سے میت کی بے حرمتی ہوتی ہے۔
البتہ جہاں تک جلدی کرنے کی مقدار کا مسئلہ ہے تو انتقال کے بعد میت کو کب غسل دیا جائے اور غسل کے کتنی دیر کے بعد تدفین کی جائے، شریعت نے اس کے لیے کوئی مخصوص وقت مقرر نہیں کیا ہے۔ بلکہ احادیث میں مطلقاً تجہیز و تکفین میں عجلت کرنے کا حکم وارد ہوا ہے۔
لہٰذا جب موت کا یقین ہوجائے تو فوراً تجہیز وتکفین کی تیاری شروع کردینی چاہیے، انتقال کے بعد تجہیز وتکفین میں جلد کرنے کے حکم میں یہ بھی داخل ہے کہ میت کو جلد از جلد غسل دے کر جلد ہی دفن کردیا جائے۔ اس میں بلاعذر تاخیر کرنا شرعاً ناپسندیدہ عمل ہے۔
حضرت طلحہ بن براء کی عیادت کے وقت آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ جب ان کا انتقال ہوجائے تو مجھے اطلاع کرنا اور ان کی تجہیز و تکفین میں عجلت کرنا ہے یہ مناسب نہیں ہے کہ مسلمان کی نعش اس کے گھر والوں کے درمیان روکی جائے۔
دیکھئے ابوداؤد شریف میں۔
عن الحصین بن وحوح أن طلحۃ بن البراء مَرِضَ، فأتاہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعودہ، فقال: إني لا أری طلحۃ إلا قد حدث فیہ الموت، فآذنوني بہ، وعجلوا؛ فإنہ لا ینبغي لجیفۃ مسلم أن تحبس بین ظہراني أہلہ۔ (أبوداؤد، کتاب الجنائز، باب تعجیل الجنازۃ وکراہیۃ حبسہا ٢/٤٥٠ رقم: ۳۱۵۹)
اسی طرح علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
قوله: ويسرع في جهازه لما رواه أبو داود «عنه صلى الله عليه وسلم لما عاد طلحة بن البراء وانصرف، قال: ما أرى طلحة إلا قد حدث فيه الموت، فإذا مات فآذنوني حتى أصلي عليه، وعجلوا به؛ فإنه لا ينبغي لجيفة مسلم أن تحبس بين ظهراني أهله والصارف عن وجوب التعجيل الاحتياط للروح الشريفة؛ فإنه يحتمل الإغماء (شامی ٣/٨٣)
اسی طرح دوسری جگہ مرقوم ہے۔
وحد التعجيل المسنون أن يسرع به بحيث لا يضطرب الميت على الجنازة للحديث أسرعوا بالجنازة، فإن كانت صالحة قدمتموها إلى الخير، وإن كانت غير ذلك فشر تضعونه عن رقابكم والأفضل أن يعجل بتجهيزه كله من حين يموت. بحر. (شامی ٣/١٣٦)
البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے
والأفضل أن يعجل بتجهيزه كله من حين يموت، ولو مشوا به بالخبب كره؛ لأنه ازدراء بالميت وإضرار بالمتبعين، وفي القنية، ولو جهز الميت صبيحة يوم الجمعة يكره تأخير الصلاة ودفنه ليصلي عليه الجمع العظيم بعد صلاة الجمعة (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ٢/٢٠٦)
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے۔
وكذا يستحب الإسراع بتجهيزه كله أي من حين موته فلو جهز الميت صبيحة يوم الجمعة يكره تأخير الصلاة عليه ليصلي عليه الجمع العظيم بعد صلاة الجمعة، ولو خافوا فوت الجمعة بسبب دفنه يؤخر الدفن اهـ (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح ٦٠٤)
عالمگیری میں ہے۔
ویبادر إلی تجہیزہ ولا یؤخر۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ١/١٥٧)فقط واللہ اعلم
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں