پیر، 28 فروری، 2022

میت کی تجہیز وتکفین اور تدفین کتنی مدت تک ہوجانا ضروری ہے؟ سوال نمبر ١٩٠

 سوال

السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

زید کا انتقال آج شام٣بجےہوا جنازہ کل صبح ٨ بجے لے جانا ہے تو غسل میت کو کب دینا چاہیے؟ مسنون طریقہ کیا ہے؟

سائل: ابو عبداللہ ہریدوار


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


جب کسی کی موت کا یقین ہوجائے تواس کی تجہیز وتکفن اور تدفین میں  جلدی کرنا مسنون ہے، شرعی عذر یا قانونی مجبوری کے بغیر تاخیر کرنا خواہ کسی بھی مقصد کے لیے ہو مکروہ ہے، اس سے میت  کی بے حرمتی ہوتی ہے۔


البتہ جہاں تک جلدی کرنے کی مقدار کا مسئلہ ہے تو انتقال کے بعد میت کو کب غسل دیا جائے اور غسل کے کتنی دیر کے بعد تدفین کی جائے، شریعت نے اس کے لیے کوئی مخصوص وقت مقرر نہیں کیا ہے۔ بلکہ احادیث میں مطلقاً تجہیز و تکفین میں عجلت کرنے کا حکم وارد ہوا ہے۔


لہٰذا جب موت کا یقین ہوجائے تو فوراً تجہیز وتکفین کی تیاری شروع کردینی چاہیے، انتقال کے بعد تجہیز وتکفین میں جلد کرنے کے حکم میں یہ بھی داخل ہے کہ میت کو جلد از جلد غسل دے کر جلد ہی دفن کردیا جائے۔ اس میں بلاعذر تاخیر کرنا شرعاً ناپسندیدہ عمل ہے۔


حضرت طلحہ بن براء کی عیادت کے وقت آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ جب ان کا انتقال ہوجائے تو مجھے اطلاع کرنا اور ان کی تجہیز و تکفین میں عجلت کرنا ہے یہ مناسب نہیں ہے کہ مسلمان کی نعش اس کے گھر والوں کے درمیان روکی جائے۔


دیکھئے ابوداؤد شریف میں۔

عن الحصین بن وحوح أن طلحۃ بن البراء مَرِضَ، فأتاہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعودہ، فقال: إني لا أری طلحۃ إلا قد حدث فیہ الموت، فآذنوني بہ، وعجلوا؛ فإنہ لا ینبغي لجیفۃ مسلم أن تحبس بین ظہراني أہلہ۔ (أبوداؤد، کتاب الجنائز، باب تعجیل الجنازۃ وکراہیۃ حبسہا ٢/٤٥٠ رقم: ۳۱۵۹)


اسی طرح علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں

قوله: ويسرع في جهازه لما رواه أبو داود «عنه صلى الله عليه وسلم لما عاد طلحة بن البراء وانصرف، قال: ما أرى طلحة إلا قد حدث فيه الموت، فإذا مات فآذنوني حتى أصلي عليه، وعجلوا به؛ فإنه لا ينبغي لجيفة مسلم أن تحبس بين ظهراني أهله والصارف عن وجوب التعجيل الاحتياط للروح الشريفة؛ فإنه يحتمل الإغماء  (شامی ٣/٨٣)


اسی طرح دوسری جگہ مرقوم ہے۔

وحد التعجيل المسنون أن يسرع به بحيث لا يضطرب الميت على الجنازة للحديث أسرعوا بالجنازة، فإن كانت صالحة قدمتموها إلى الخير، وإن كانت غير ذلك فشر تضعونه عن رقابكم والأفضل أن يعجل بتجهيزه كله من حين يموت. بحر. (شامی ٣/١٣٦)


البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے

والأفضل أن يعجل بتجهيزه كله من حين يموت، ولو مشوا به بالخبب كره؛ لأنه ازدراء بالميت وإضرار بالمتبعين، وفي القنية، ولو جهز الميت صبيحة يوم الجمعة يكره تأخير الصلاة ودفنه ليصلي عليه الجمع العظيم بعد صلاة الجمعة (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ٢/٢٠٦)


حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے۔

وكذا يستحب الإسراع بتجهيزه كله أي من حين موته فلو جهز الميت صبيحة يوم الجمعة يكره تأخير الصلاة عليه ليصلي عليه الجمع العظيم بعد صلاة الجمعة، ولو خافوا فوت الجمعة بسبب دفنه يؤخر الدفن اهـ (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح ٦٠٤)


عالمگیری میں ہے۔

ویبادر إلی تجہیزہ ولا یؤخر۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ١/١٥٧)فقط واللہ اعلم


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا


وکیل بالبیع کا کسی چیز کو زائد رقم سے فروخت کرنا سوال نمبر ١٨٩

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتیان کرام ایک مسئلہ معلوم کرنا ہے مسئلہ یہ ہے ایک صاحب کی امروہہ میں دکان ہے  وہ وہاں سے اپنی دکان کے کچھ سامان وغیرہ کے فوٹو بھیجتے ہیں اور ایک سامان کی قیمت 2000 بتاتے ہیں پھر میں ان فوٹو کی تشہیر کرتا ہوں اور جو خریدنے کے لئے کہتا ہے اس سے میں 2500کی قیمت طے کرتا ہوں اور سامان پہنچانے کی ذمہ داری امروہہ والے صاحب کی ہے لیکن خریدنے والا سامان پانے کے بعد پیسے میرے اکاؤنٹ میں ڈالتا ہے پھر میں 2000 روپئے امروہہ والے صاحب کے اکاؤنٹ میں ڈال دیتا ہوں کیا اس طرح کا کاروبار میرے لئے درست ہے؟

سائل: عبد الصمد ہریدوار


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


مذکورہ صورت میں اس شخص کی حیثیت وکیل بالبیع کی ہے اور وکیل شرعاً امین یعنی امانت دار ہوتا ہے، لہذا وکیل بالبیع کے لئے موکل کے بتائی ہوئی رقم سے زائد قیمت میں بیچنا تو جائز ہے البتہ اس زائد رقم کا مالک موکل ہے نہ کہ وکیل اس لئے وکیل کے لئے اس زائد رقم کو رکھنا جائز نہیں ہے، اگر وکیل اپنی محنت کی اجرت لینا چاہتا ہو، تو معاملہ کو صاف رکھتے ہوئے شروع میں ہی اس کام کی اجرت طے کرسکتاہے۔ (مستفاد: امداد الاحکام: ١٤٤ کتاب الوکالة)


مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے۔

إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا. فليس له أن يطالب بالأجرة۔ (مجلۃ الاحکام العدلیۃ: الباب الثالث فی بیان احکام الوکالۃ، ٤/٤٤٥ ط: مکتبۃ رشیدیۃ)


شامی میں ہے۔

فرع: الوکیل إذا خالف، إن خلافا إلی خیر في الجنس کبیع بألف درہم فباعہ بألف ومأة نفذ (وفي الشامی) قال في الہامش: وکلہ أن یبیع عبدہ بألف وقیمتہ کذلک ثم زاد قیمتہ إلی ألفین لا یملک بیعہ بألف بزازیة(شامی: ۸/۲۵۷، کتاب الوکالة، ط: زکریا) واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

چھوٹی ہوئی نمازوں کے قضاء کرنےکا طریقہ سوال نمبر ١٨٨

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب بڑے ادب سے آپ کی خدمت میں ایک سوال عرض ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایک صاحب کی تقریبا چار ہزار سے زیادہ فجر کی نماز قضا ہے کم و بیش تو اس قضا نمازوں کو ادا کرنے کا طریقہ کیا ہے مسلسل یہ ادا کرنا بھی نہیں ہوتی کبھی ایک دن ادا کی پھر درمیان میں وقفہ پڑ جاتا ہے تو بچی ہوئی باقی نمازوں کو کس طرح سے ادا کیا جائے اس کا طریقہ کیا ہو ذرا جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں جزاک اللہ

سائل: محمد اسلم میزابی ایولے واڑی پونہ مہاراشٹر


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


چھوٹی ہوئی نمازوں کو قضاء کرنے کا اصل طریقہ تو یہی ہے کہ قضا نمازوں کی تعداد معلوم ومتعین ہے تو ترتیب سے ان نمازوں کی قضا کریں، یعنی دن اور تاریخ کی تعیین کے ساتھ قضا کی کریں، لیکن اگر نمازیں زیادہ ہوں جن کا حساب لگانا اور دن وتاریخ کی تعیین کرنا دشوار ہو اور متعین طور پر قضاشدہ نمازوں کی تعداد معلوم نہ ہو تو پہلے اپنی رائے اورخیال غالب سے متعین کرلیں کہ کتنی نمازیں فوت ہوئی ہے، پھر جتنے سالوں یامہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں انہیں الگ سے لکھ لیں، پھر قضا کرتے وقت یہ نیت کریں کہ سب سے پہلے جوفجر چھوٹ گئی ہے وہ قضاکرتا ہوں، یا یہ نیت کریں کہ جہ سب سے آخر میں چھوٹی ہے اس کی قضاء کرتاہوں، اسی طرح پھر دوسری نمازوں کی قضاء کی نیت کریں ۔


مسؤلہ صورت میں آپ اپنی نمازیں اوقات مکروہہ کے علاوہ کبھی بھی اور کسی بھی وقت کرسکتے ہیں چاہے ایک ساتھ کریں یا کبھی کریں کبھی چھوڑ دیں سا جائزہے اور جو قضاء کا طریقہ بتایا گیا ہے اس ترتیب کو سامنے رکھتے ہوئے آپ اپنی ساری نمازوں کی قضاء کرسکتے ہیں۔


الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے

كثرت الفوائت نوى أول ظهر عليه أو آخره ۔۔۔۔۔ قوله كثرت الفوائت إلخ مثاله: لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين؛ لأن فجر الخميس مثلاً غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول: أول فجر مثلاً، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولاً، أو يقول: آخر فجر، فإن ما قبله يصير آخراً، ولايضره عكس الترتيب؛ لسقوطه بكثرة الفوائت۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٢/٥٣٨) واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا




غیر مسلموں سے تعلقات کی حد اور اس کا شرعی حکم سوال نمبر ١٨٧

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اور بزرگان دین مسلہ ذیل کے بارے میں، اگر کسی مسلمان کا غیر مسلم بھائی سے دوستی یاری کا تعلق ہو تو کیا وہ مسلمان غیر مسلم بھائی کے لئے منت یا کوئی صدقہ وغیرہ کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اس بات کی مکمل روایت و آثار کی روشنی میں وضاحت فرمائیں گے۔

مزید یہ حضرت کہ بھائی چارہ یا نو مسلم بھائی سے سماجی تعلقات کا کیا حکم ہے؟

قرآن وحدیث کی روشنی مدلل جواب عنایت فرمائیے گا عنایت در عنایت ہوگی جزاکم اللہ تعالیٰ جزاء حسنا۔

سائل: ریاض رحمانی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


حضرات علمائے کرام کی تصریحات کے مطابق دو شخصوں یا دو جماعتوں میں تعلقات کے مختلف درجات ہوتے ہیں،


١۔۔۔موالات

ایک درجہ تعلق کا قلبی موالات یا دلی موددت و محبت ہے، موالات سے مراد دلی دوستی اور قلبی محبت واحترام ہے، یہ صرف اہل ایمان کے ساتھ خاص ہے، کسی کافر کے لیے دل میں محبت اور مودت رکھنا اور اس کی تعظیم کرنا ناجائز ہے۔

سورة ممتحنہ میں ارشاد ہے،

یا ایھا الذین امنوا لا تتخوا عدوی وعدوکم اولیاء تلقون الیھم بالمودۃ۔

یعنی اے ایمان والو میرے دشمن اور اپنے دشمن یعنی کافر کو دوست نہ بناؤ کہ تم ان کو پیغام بھیجو دوستی کے، پھر اس کے آخر میں فرمایا

ومن یفعلہ منکم فقد ضل سواء السبیل،

جس شخص نے ان سے دوستی کی تو وہ سیدھے راستہ سے گمراہ ہوگیا، 

اس کے علاوہ جن آیتوں میں منع وارد ہوا ہے، وہاں یہی درجہ مراد ہے۔


٢۔۔۔مواسات

دوسرا درجہ مواسات کا ہے جس کے معنی نفع رسانی ہمدردی اور خیر خواہی کرناہے، انسانی تعلق کے ناطے اس کی اجازت ان غیر مسلموں کے ساتھ ہے جو مسلمانوں کے ساتھ برسر پیکار نہیں ہیں۔ برسرپیکار کافر کے ساتھ ہمدردی جائز نہیں۔

سورة ممتحنہ کی آٹھویں آیت میں اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے جس میں ارشاد ہے۔

لا ینھکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم وتقسطوا الیھم۔

یعنی اللہ تعالیٰ تم کو منع نہیں کرتا ان سے جو لڑتے نہیں تم سے دین پر اور نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان کے ساتھ احسان اور انصاف کا سلوک کرو۔


٣۔۔۔مدارات

تیسرا درجہ مدارات کا ہے جس کے معنی ہیں ظاہری خوش خلقی و دوستانہ برتاؤ اور روبرو حسن لقاء اپنایا جائے، یہ تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے بشرطیکہ اس سے مقصد ان کی تالیف قلب ہو، یا وہ اپنے مہمان ہوں۔


٤۔۔۔معاملات

چوتھا درجہ معاملات کا ہے کہ ان سے تجارت یا اجرت و ملازمت اور اور صنعت و حرفت کے معاملات کئے جائیں، یہ بھی تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے، جب کہ اس میں عام مسلمانوں کا ضرر نہ ہو، جیسے اہل حرب کو اسلحہ فروخت کرنا وغیرہ ممنوع ہیں۔ اس لیے کہ اس میں مسلمانوں کا ضرر ہے، باقی تجارت وغیرہ کی اجازت دی ہے، اور ان کو اپنا ملازم رکھنا یا خود ان کے کارخانوں اور اداروں میں ملازم ہونا یہ سب جائز ہے۔


٥۔۔۔جلب منفعت یا دفع ضرر

پانچواں درجہ جلب منفعت یا دفع ضرر ہے جلب منفعت کا مطلب ہے کہ کوسی ایسی جگہ پر ہو جہاں ان کے تعلق سے ایمانی فائدہ ہوگا یا اسی کو دینی نفع پہنچانا مقصود ہو اور دفع ضرر کا مطلب ہے کہ ان کے شر اور ضرر رسانی سے اپنے آپ کو بچانا مقصود ہو، تب بھی ان سے مدارات و مواسات کا تعلق کرسکتے ہیں۔ سورة آل عمران کی آیت میں مذکور ہے (اِلَّاۤ اَنۡ تَتَّقُوۡا مِنۡهُمۡ تُقٰٮةً) یعنی ایسی حالت میں جبکہ تم ان سے اپنا بچاؤ کرنا چاہو۔ 


خلاصۂ کلام

یہ ہوا کہ اسلام میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ نہ تو ایسا رویہ اختیار کیا جائے گا جس سے انسانی اقدار متزلزل ہوں اور نہ ہی ایسا کلی اختلاط روا رکھا گیا ہے جس سے آپس کا فرق اور تمیز مٹ جائے، محدود دائرے میں تعلقات کی گنجائش ہے ۔


مسؤلہ صورت میں غیر مسلموں سے ظاہری خوش خلقی، ہمدردی، خیرخواہی، نفع رسانی اور باہمی لین دین کی حد تک تعلقات رکھنا جائز اور درست ہے، لیکن دلی دوستی اور قلبی محبت وتعلق ایمان والے کے علاوہ کسی سے بھی جائز نہیں،

اور مسلمان کا غیر مسلم بھائی کے لئے منت یا کوئی صدقہ وغیرہ کرنا یہ دلی تعلق کی علامت ہے جو درست نہیں ہے، نو مسلم بھائی یہ مسلمان ہی ہے اس کے لئے مکمل حقوق مسلموں کی طرح ہی ہے لہذا اس سے مکمل سماجی تعلقات رکھنا لازمی حق اور شرعی حکم رہےگا۔ واللہ اعلم بالصواب۔

(مستفاد: سورۂ آل عمران آیت نمبر ٢٨ کے تحت۔

بیان القرآن، مولانا اشرف علی تھانوی صاحب۔

معارف القرآن، مفتی شفیع صاحب پاکستانی۔

انوار البیان، مولانا عاشق الٰہی بلند شہری۔

آسان ترجمہ قرآن، مفتی تقی عثمانی صاحب)


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

اتوار، 27 فروری، 2022

نکاح کی اور رجسٹری کی اجرت کا شرعی حکم سوال نمبر ١٨٦

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

امید ہے کہ آپ خیریت سے ہونگے حضرت مجھے ایک مسلہ معلوم کرنا ہے مسئلہ یہ ہے نکاح کی اجرت کا کیا حکم ہے؟ اور وہ کس کا حق ہے جو نکاح کے رجسٹر کی فیس 100 ہوتی‌‌ ہے اس کا لینا جائز ہے یا نہیں اور وہ پیسہ امام کے ہوتے ہیں یا مسجد کے حضرت اس مسلہ کی وضاحت فرمائیں؟ عین نوازش ہوگی۔

سائل: محمد فیضان جلال آباد


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


نکاح کی اجرت کا لینا جائز ہے کیوں کہ نکاح پڑھانے والے کے لئے خطبہ مسنونہ کے بعد ایجاب و قبول کرانا رجسٹر پر دولہا دولہن سے دستخط کرانا ، وکیل اور گواہان سے دستخط کرانا پھر خود دستخط کرکے رجسٹر کو مکمل کرنا، ایک کاپی لڑکی والوں کو اور ایک کاپی لڑکے والوں کو دینا اور ایک کاپی اپنے پاس ریکارڈ میں رکھنا، یہ سب امور نکاح پڑھانے والے کے ذمہ ہوتے ہیں اور فقہاء متاخرین نے ان امور کی بجاآوری پر اجرت لینے کی اجازت دی ہے۔


 فتاوی عالمگیری میں ہے 

وکل نکاح باشرہ القاضی وقد وجبت مباشرتہ علیہ، کنکاح الصغار والصغائر فلایحل لہ أخذ الأجرة علیہ ومالم تجب مباشرتہ علیہ حل لہ أخذ الآخرة علیہ، کذا فی المحیط، واختلفوا فی تقدیرہ والمختار للفتوی أنہ إذا عقد بکراً یاخذ دیناراً وفی الثیب نصف دیناراً ویحل لہ ذلک ہکذا قالوا ۔ کذا فی البرجندی (فتاوی عالمگیری ٣٤٥/۳)


البحر الرائق میں ہے۔

قال في البزازية من كتاب القضاء وإن كتب القاضي سجلا أو تولى قسمة وأخذ أجرة المثل له ذلك ...وذكر عن البقالي في القاضي يقول إذا عقدت عقد البكر فلي دينار وإن ثيبا فلي نصفه أنه لا يحل له إن لم يكن لها ولي فلو كان ولي غيره يحل بناء على ما ذكروا۔ (البحر الرائق - ٥/٢٦٣)


نکاح پڑھانے میں جو اجرت دی جاتی ہے وہ در حقیقت نکاح خوانی کی اجرت ہے ، جس کا مستحق اور حق دار نکاح خواں ہوتا ہے ، لہذا جس نے نکاح پڑھایا ہے یا جرت اسی کا حق ہے ، نہ کہ امام صاحب کا ۔ ( مستفاد: امداد الفتاوی ۲/۲۷۸، فتاوی محمودیہ ڈابھیل ۱۷ / ۹۷، کفایت لمفتی، زکریا مدلل ٥/١٤٦)


اسی طرح شامی میں ہے۔

والأجرة إنما تكون في مقابلة العمل. (رد المحتار  ٤/٣٠٧)


مسؤلہ صورت میں نکاح کی اجرت لینا جائز ہے اور اس کے حقدار نکاح پڑھانے والے ہیں چاہے وہ مسجد کا امام ہو یا کوئی اور ہو اسی طرح جو نکاح کے رجسٹر کی فیس ١٠٠ ہوتی‌‌ ہے اس کا لینا بھی جائز ہے، اور جس رجسٹر میں وہ اندراج ہوتاہے اگر وہ مسجد یا ٹرسٹ کا ہے تو وہ پیسے بھی انہی کے ہوں گے اور اگر امام صاحب کا ہے تو وہ پیسے امام صاحب کے ہوں گے۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

گشت میں نکلنے کے وقت چپلوں کے وہاں کھڑے ہوکر دعاء کرنا سوال نمبر ١٨٥

 سوال

السلامُ علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

جماعت کے لوگ گشت کرنے سے پہلے گیٹ پر چپلوں کےپاس دعا کرتے ہیں بجائے مسجد کے کیا یہ صحیح ہے؟

سائل: عنایت اللہ رحیم پور


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


دعاء جس حال میں بھی کی جائے اگر وہ دل سے ہو تو مقبول ہوتی ہے چاہے کھڑے کھڑے دعاء کریں یا سوتے سوتے دعاء کریں یا چلتے پھرتے دعاء کریں، لیکن یہ دعاء کی ہیئت مسنونہ نہیں ہے۔

دعا کی مسنون ہیئت یہ ہے کہ بوقت دعا دو زانوں بیٹھنا اور دونوں ہاتھوں کو سینے کے بالمقابل اٹھائے اور دونوں ہاتھوں کے درمیان تھوڑی سی خلاء وفصل رکھے اور دعا سے فراغت کے بعد دونوں ہاتھوں کو چہرے پر پھیرلے۔


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

والأفضل فی الدعاء أن یبسط کفیہ ویکون بینہما فرجة، وإن قلت․․․ والمستحب أن یرفع یدیہ عند الدعاء بحذاء صدرہ، کذا فی القنیة. مسح الوجہ بالیدین إذا فرغ من الدعاء․․․ کثیر من مشایخنا - رحمہم اللہ تعالی - اعتبروا ذلک وہو الصحیح وبہ ورد الخبر إلخ (الہندیة، کتاب الکراہیة باب الصلاة والتسبیح الخ: ۵/ ۳۹۲، بیروت) مستفاد فتاویٰ دار العلوم دیوبند۔۔


صورت مسئولہ میں اچھا یہ ہے کہ مسجد سے نکلتے وقت مسنون طریقے سے دعاء کریں اس طریقے کو فقہاء نے دعاء کے آداب و مستحبات میں ذکر نہیں کیا ہے لہذا یہ آداب دعاء کے خلاف ہے، اچھا یہ ہے کہ جو طریقہ مسنون ہے اس پر عمل کیاجائے، البتہ اس طرح سے دعاء کرنے سے وہ لوگ طعن و تشنیع کے مستحق نہیں ہوں گے، واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

حکومت کی طرف سے ممنوع اشیاء کی خرید و فروخت کا شرعی حکم سوال نمبر ١٨٤

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ  

مفتی صاحب مجھے یہ مسئلہ معلوم کرنا ہیں کہ حکومت  کی طرف سے جن چیزوں  پر پابندی لگائی گئی  ہے ان کا  کاروبار  کرنا درست ہے یا نہیں جیسے سے انڈیا میں ہرن اور  مور کا کاروبار ممنوع ہے  حکومت کی طرف سے اسی طریقے سے چندن کی لکڑی  اور پڑاک کی لکڑی  کا کاروبار  ممنوع ہے تو اب ان چیزوں  کا کاروبار کرنا شرعی اعتبار سے  جائز ہوگا یا نہیں اور ان سے جو کمائی  ہوگی وہ حلال ہوگی یا حرام ؟؟؟

یا یہ  کہ حکومت کی طرف سے ممنوع ہونے کی وجہ سے شریعت  کی طرف سے بھی ممنوع ہوگا کیا ؟؟؟

اور اس طریقے کا کاروبار  ہندوستانی حکومت کے اعتبار سے انلیگل(illigal) ہے تو کیا شرعی اعتبار سے بھی اس کا کرنا جائز نہ ہو گا کیا مفتی صاحب؟؟

سائل: محمد انس ایس انڈمان


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


اشیاء کے سلسلہ میں فقہاء نے ایک اصولی قاعدہ بیان کیاہے۔ الأصل في الأشياء الإباحة حتى يدل الدليل على التحريم۔ (الأشباه والنظائر لابن نجيم، ص:٧٣) یعنی اشیاء میں اصل اباحت ہیں جب تک کہ ان کے حرام ہونے پر کوئی دلیل شرعی نہ ہو۔


اس قاعدے کا مطلب یہ ہے کہ جن اشیاء کے بارے میں قرآن وسنت خاموش ہیں، یعنی قرآن وسنت میں جن اشیاء کی حلت وحرمت مذکور نہیں، ایسی اشیاء اپنی اصل کے اعتبار سے مباح اور جائز سمجھی جائیں گی۔ البتہ اگر کسی چیز کے بارے میں دلائلِ شرعیہ سے کوئی صریح اور واضح حکم موجود ہو تو وہ اس زمرے میں نہیں آئے گی اور نہ ہی اس چیز کو اس اصول کی بنیاد پر مباح کہا جائے گا بلکہ اس کے بارے میں دلائلِ شریعت سے جو حکم متعین ہے وہی معتبر ہو گا۔ حاصل یہ کہ اگر کسی چیز کی حرمت یا کراہت شرعی دلائل سے ثابت نہ ہو تو اس کو اپنی اصل کے لحاظ سے مباح سمجھا جائے۔


لیکن حکومت  کی طرف سے جن چیزوں  پر پابندی لگائی گئی ہے وہ قانوناً جرم ہے، اور پکڑے جانے کی صورت میں  ہتکِ عزت اور ذلت کا اندیشہ بھی ہے، اور قید وبند کی صعوبتیں اور رسوائیاں اس پر مستزاد، جب کہ شرعاً  اپنے آپ کو اس طرح ذلت کے مواقع میں دھکیلنا جائز نہیں ہے۔


كنز العمال میں ہے۔

(٨٨٠٧) الوضين بن عطاء عن يزيد بن مرثد عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يحل لمؤمن أن يذل نفسه. قيل: وما إذلال نفسه يا رسول الله؟ قال: يعرض نفسه لإمام جائر۔ السلفي في انتخاب حديث الفراء۔ (كنز العمال ٣/٨٠٢)


 تاہم اگر کسی نے اس کا معاملہ کر ہی لیا تو فی نفسہ وہ شریعت کی نگاہ میں مال ہے اس لئے اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو حرام شمار نہیں کیا جائے گا البتہ سبب غیر کی وجہ سے ان چیزوں سے جن پر حکومت روک لگادیں اس سے اجتناب ضروری ہے، باقی فی نفسہ وہ شئی حلال شمار ہوگی۔


فتاوی شامی میں ہے۔

والحاصل أن جواز البیع یدور مع حل الانتفاع۔ (فتاوی شامی باب البيع الفاسد، ٧/٢٦٠)


مسؤلہ صورت میں جن اشیاء سے حکومت نے روک لگائی ہے اس سے دفع ضرر کے خاطر اجتناب ضروری ہے لیکن وہ اشیاء شریعت کی نگاہ میں ممنوع و محجور نہیں ہے البتہ اگر وہ چیزیں حکومت کی ملکت ہو تو شرعی اعتبار سے بھی وہ ممنوع و محجور ہوجائے گا، اور اس کی آمدنی بھی حلال نہیں ہوگی۔


شرح المجلۃ میں ہے:

لایجوز لأحد أن یتصرف في ملك غیره بلا إذنه أو وکالة منه أو ولایة علیه، وإن فعل کان ضامنًا (شرح المجلة، ١/٦١ مادة: ٩٦ دار الکتب العلمیة، بیروت) واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

ہفتہ، 26 فروری، 2022

موبائل فون ٹیبلیٹ اور کمپیوٹر کی اسکرین پر قرآن کریم کو چھونا سوال نمبر ١٨٣

 سوال

حضرت مفتی صاحب

ایک مسئلہ دریافت کرناہے وہ یہ کہ موبائل فون ٹیبلیٹ اور کمپیوٹر سے قرآن پڑھنے کی صورت میں سکرین کے اوپر ظاہر ہونے والے قرآنی نقوش کو بلا وضوء چھونا جائز ہے یا نہیں، کوئی جائز لکھتا ہے اور کوئی حرام لکھتا ہے کسی سے دریافت کرنے پر وہ یہ کہتے ہیں کہ بہتر نہیں ہے حضرت مفتی صاحب آپ کے اکثر فتاوی میں نے بالتفصیل اور مکمل وضاحت سے لکھے ہوئے پڑھے ہیں اس لئے آپ سے اس مسئلہ پر بھی تحقیقی جواب کا امیدوار ہوں ہم دعاء کرتے ہیں کہ اللہ آپ کی سعی حمیدہ کو قبول فرمائیں۔ آپ مدلل و مفصل جواب تحریر فرمائیں۔

سائل:مولوی مختار احمد ایم پی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ


سب سے پہلے یہ بات سمجھئے کہ قرآن کریم کو بلاوضو چھونا یہ حرام ہے، یہی جمہور علماء کا مسلک ہے، کہ انہوں نے قرآن کریم کو بلا طہارت مس کرنے کو ناجائز قرار دیا ہے، لہذا قرآن کریم کو اگر ہاتھ میں لے کر پڑھنا ہے تو اس کے لیے باوضو ہونا ضروری ہے، بغیر وضو کے قرآنِ کریم کو چھونا جائز نہیں ہے، اور اس کی حرمت کی بنیاد احادیث مبارکہ ہیں۔


امام مالک نے موطأ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مکتوبِ گرامی نقل کیا ہے جو آپ نے حضرت عمرو بن حزم کو لکھا تھا ، جس میں ایک جملہ یہ بھی ہے ’’لایمس القران إلا طاهر‘‘ یعنی قرآن کو وہ شخص نہ چھوئے جو طاہر نہ ہو، اور ابن کثیر نے بھی اللہ کے رسول کے مکتوبِ گرامی کو نقل کیا ہے جو آپ نے حضرت عمرو بن حزم کو لکھا تھا


موطأ لإمام مالک میں ہے۔

أخرج مالک عن عبد اللّٰہ بن أبي بکر بن حزم أن في الکتاب الذي کتبہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لعمرو بن حزم أن لا یمس القرآن إلا طاہرا۔ (الموطأ لإمام مالک، کتاب القرآن، باب الأمر بالوضوء لمن مس القرآن ۱۵۳ رقم: ۱)


اس کے مزید دلائل دیکھنے کے لئے میرے اس فتوے کی لنک پر کلک فرمائیں۔

https://muftiasifgodharvi.blogspot.com/2022/02/blog-post_19.html


یہ مسئلہ تو قرآن کریم کو ڈایریکٹ ہاتھ سے چھونے کے سلسلے میں ہے اب رہی بات موبائل ٹیبلیٹ اور کمپیوٹر کی اسکرین پر قرآن کریم کو چھونے کی تو سب سے پہلے یہ سمجھئے کہ اس کی تین صورتیں رہے گی ایک قرآن کریم موبائل ٹیبلیٹ اور کمپیوٹر میں ہے لیکن یہ تینوں بند ہے دوسرے نمبر پر یہ تینوں کھلے ہوئے ہے لیکن قرآن کریم کھلا ہوا نہیں ہے، تیسرے نمبر پر یہ تینوں کھلے ہوئے ہے اور قرآن کریم بھی کھلا ہوا ہے۔

اتنی بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ قرآن کریم موبائل ٹیبلیٹ اور کمپیوٹر میں موجود ہو اور وہ بند ہو تو اس کا چھونا جائز ہے اور اس بات پر بھی سب متفق ہے کہ قرآن کریم موبائل ٹیبلیٹ اور کمپیوٹر میں جب قرآن کھلا ہوا ہو تو اس کے دوسرے پارٹس کو بھی چھونا جائز ہے یعنی موبائل اور ٹیبلیٹ ہے تو اس کا کور، یا دوسرے اجزاء اور کمپیوٹر ہے تو اس کا کی بورڈ وغیرہ۔

کیوں کہ جب قرآن کریم موبائل یا میموری کارڈ کے اندر ہو یعنی اس کو اسکرین پر کھولا نہ گیا ہو، تو اس وقت چوں کہ قرآن کریم حروف ونقوش کی صورت میں موجود نہیں ہے اس لیئے اس کو ہاتھ لگانے کے لیئے باوضو ہونا ضروری نہیں۔


اختلاف اس بات پر ہے کہ قرآن کریم جب موبائل ٹیبلیٹ اور کمپیوٹر پر کھلا ہوا ہو تو کیا اس کو یعنی اس اسکرین کو اور اس پر کھلے ہوئے قرآن کریم کو بلا وضوء چھونا جائز ہے یا نہیں، اس سلسلہ میں ارباب فتاویٰ کی جانب سے تین اقوال ملتے ہیں۔


(١) موبائل ٹیبلیٹ اور کمپیوٹر کی پوری اسکرین کو قرآن کھلا ہونے کی صورت میں چھونا جائز نہیں ہے، ان کے دلائل وہی ہے جو قرآن کریم کو بلاوضو چھونے کے بارے میں اوپر گزرے۔

وہ لوگ یہ فرماتے ہیں کہ جب موبائل اسکرین پر قرآنِ کریم کی آیات واضح طور پر نظر آرہی ہیں، تو وہ حقیقت میں قرآن ہی کے حکم میں ہے، اور یہ شیشہ بظاہر حائل نظر آتا ہے، لیکن وہ حقیقت میں منفصل نہیں ہے،


(2) جب قرآن موبائل ٹیبلیٹ اور کمپیوٹر پر کھلا ہو تو اس صورت میں صرف جس اسکرین پر قرآن کریم کے نقوش ظاہر ہو رہے ہیں اس کا چھونا جائز نہیں، اس کے علاوہ اسکرین کے ارد گرد کی جگہ اور  دیگر پارٹس کو بلا وضو چھونا جائز ہے۔


وہ حضرات یہ فرماتے ہیں کہ موبائل یا میموری کارڈ میں جو نقوش ہے وہ قرآن کریم کے حکم میں نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو موبائل کے دیگر پارٹس غلاف منفصل کے حکم میں ہوں گے۔ اور جب موبائل یا میموری کارڈ کے حافظے میں موجود قرآن کریم کو اسکرین پر کھول لیا جائے تو اس وقت چوں کہ اسکرین پر موجود نقوش قرآن کریم کے الفاظ پر دلالت کرتے ہیں ، اس وقت اسکرین پر ہاتھ لگانے کے لیئے وضو ہونا ضروری ہے اور اس صورت میں چوں کہ قرآن کریم کا صرف وہی حصہ حروف کی شکل میں ہے جو اسکرین پر نظر آرہا ہے، لہٰذا اسکرین کو ہاتھ لگانا طہارت کے بغیر جائز نہ ہوگا اور اسکرین کے علاوہ موبائل کے بقیہ حصوں کو ہاتھ لگانا جائز ہو گا، اکثر ارباب فتاوی نے اسی قول پر فتوی دیا ہے۔


(3) تیسرا قول یہ ہے کہ اس اسکرین کو بھی ہاتھ لگا سکتے ہیں اور دیگر پارٹس کو بھی۔

وہ حضرات اس کو تین چیزوں پر قیاس کرتے ہیں ایک یہ کہ قرآنی آیات کسی کاغذ پر لکھی ہوئی ہوں اور وہ کاغذ کسی شیشے کے باکس میں پیک ہو، پھر باہر سے اس شیشے کو چُھوا جائے تو اس میں شرعاً کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا کیونکہ یہ غلافِ منفصل کی طرح ہے کہ یہ شیشہ اس قرآنی نقوش سے جُدا ہے، اسی طرح موبائل یا کمپیوٹر اسکرین پر نظر آنے والی قرآنی آیات کو بھی بلا طہارت چھونا جائز ہے، کیوںکہ یہ شیشہ بھی اس قرآنی نقوش سے جُدا ہے، جہاں آیات کے نقوش بن رہے ہیں۔

دوسرے نمبر پر اسے مصحفِ قرآنی کے غلافِ منفصل پر قیاس کرتے ہیں یعنی ایسا غلاف جو قرآنِ کریم کے ساتھ لگا ہوا نہ ہو بلکہ اس سے جُدا ہو تو اس کو بغیر طہارت کے  اُٹھانا اور چُھونا جائز ہے، اسی طرح یہ بھی غلاف منفصل کی طرح ہے، اس کا بھی بلا طہارت چھونا جائز ہوگا۔

تیسرے نمبر پر بند صندوق میں قرآن ہونے کی صورت میں جس طرح حسب تصریح فقہائے کرام بغیر طہارت کے  اُٹھانا اور چُھونا جائز ہے، اسی طرح یہ بھی بند صندوق کی طرح ہے، اس کا بھی بلا طہارت چھونا جائز ہوگا۔

اور ان سب کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ موبائل یا کمپیوٹر کی سکرین پر جو آیات نظر آتی ہیں، وہ سافٹ وئیر ہیں یعنی ایسے نقوش ہیں، جنہیں چُھوا نہیں جاسکتا۔ اسی طرح ماہرین کی تحقیق کے مطابق یہ نقوش کمپیوٹر یا موبائل کے شیشے پر نہیں بنتے بلکہ ریم پر بنتے ہیں اور شیشے سے نظر آتے ہیں، لہذا یہ نظرآنے والے نقوش ظاہری قرآن کریم کے نقوش کی طرح نہیں ہوسکتے یعنی ظاہر میں جس طرح اوراق میں مکتوب قرآن کا حکم ہے وہ اس کا نہیں ہوسکتا۔

اسی طرح اس میں جو نقوش نظر آتے ہیں ان کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں باقاعدہ ایسے حروف موجود نہیں ہوتے جن کے لئے ثبات و دوام اور اپنا کوئی وجود ہو، بلکہ درحقیقت یہ روشنی کی شعاعیں ہیں جو مسلسل سکرین پر پڑتی ہیں اس کو قرآن نہیں کہیں گے اور نہ اس پر قرآن کریم والے احکام جاری ہونگے ، لہٰذا آیاتِ قرآنی اسکرین پر نظر آرہی ہوں تو بلا وضو اسکرین کو ہاتھ لگانا فی نفسہ جائز ہے بالخصوص جبکہ درمیان میں اسکرین بھی حائل ہوتی ہے، تاہم اس حالت میں ادب و احتیاط کے تقاضے کے مطابق باوضو اسکرین پر ہاتھ لگانے کے بہتر اور افضل ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔

یوٹیوب میں علماء کے فتاویٰ بیانات میں زیادہ تر تیسری صورت کو ترجیح دی گئی ہے لیکن اختلافات علماء کی بناء پر قرآن چاہے ڈایریکٹ چھوئے یا موبائل ٹیبلیٹ اور کمپیوٹر کی اسکرین پر چھوئے وضوء کرلینا بہتر ہے۔

اس سلسلہ میں تین ویڈیوز پیش خدمت ہے ملاحظہ فرمائیں۔

مفتی سعید احمد پالنپوری موبائل اسکرین پر قرآن کو بلا وضو چھونے کے بارے میں فرماتے ہیں۔

https://youtu.be/du6STna8_Hk


مولانا طارق مسعود موبائل اسکرین پر قرآن کو بلا وضو چھونے کے بارے میں فرماتے ہیں۔

https://youtu.be/WwHJWgCq2aw


https://youtu.be/35OiWRiAUWg


اسی طرح مفتی تقی عثمانی صاحب کے بیان سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے۔

https://youtu.be/v8f2lG0c3Vs


مسؤلہ صورت میں مذکورہ مفصل تفصیل کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ  قول اول احوط قول ثانی اوسط اورقول ثالث جائز غیر اولی ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

پلاسٹک کی ٹوپی پہن کر نماز پڑھنا سوال نمبر ١٨٢

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں۔

١/کہ پلاسٹک کی ٹوپی میں نماز پڑھنا کیسا ہے۔

٢/ٹوپی نہ ہونے کی صورت میں رومال سر پر رکھ کر نماز پڑھنا کیسا ہے۔

٣/اگر کپڑے کی ٹو پی نہ ہو تو رومال یا پلاسٹک کی ٹوپی یا ننگے سر نماز پڑھنا ان تین صورتوں میں کون سی بہتر ہے؟

شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں عنایت ہوگی۔

سائل: عبدالواجد سھارنپور


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


نماز عبادات میں سب سے افضل اور اہم ترین فريضہ ہے، نمازی بحالتِ نماز اللہ تعالیٰ سے سرگوشی کرتاہے یہاں تک کہ آخرت میں بھی سب سے پہلے ‌نماز کا حساب ہوگا لہذا اس کو ادا کرنے میں حد درجہ آداب کا اہتمام کرنا چاہئے اور منجملہ نماز کے آداب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ٹوپی یا عمامہ پہن کر نماز پڑھی جائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا یہی معمول تھا، اور آج تک سلف صالحین کا بھی یہی طریقہ رہا ہے۔


اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کے دربار میں ایسے لباس میں حاضر ہونا ممنوع ہے جس لباس کو پہن کر معزز مجمع یا مجلس میں حاضر ہونے میں ناگواری ہوتی ہو یا اس کو باعثِ عیب و عار سمجھا جاتا ہو، آدمی کو اللہ رب العزت کے سامنے اچھے لباس اور اچھی ٹوپی میں کھڑا ہونا چاہیئے اور پلاسٹک کی ٹوپی ہمارے معاشرہ میں اچھی نہیں سمجھی جاتی ، عام طور پر آدمی ایسی ٹوپی پہن کر شریف ومعزز لوگوں کی مجلس میں جانا بھی پسند نہیں کرتا، اور پلاسٹک کی ٹوپی پہن کر معزز مجمع اور تقریب میں جانے کو معیوب  اور باعثِ عار  سمجھا جاتا ہے، اس لیے پلاسٹک کی ٹوپی پہن کر نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی اور خلاف اولی اس لیے ایسی ٹوپی پہن کر نماز پڑھنا اگرچہ جائز ہے، لیکن اس سے نماز مکروہ ہوجائے گی۔


قرآنِ کریم میں ہے: یَا بَنِیْ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ الأعراف:۳۱)


اسی طرح شامی میں ہے۔

وصلاتہ في ثیاب بذلة یلبسہا في بیتہ ومہنة، أي: خدمة إن لہ غیرہا وإلا لا۔  قولہ:  وصلاتہ في ثیاب بذلة۔۔۔ قال في البحر: وفسرہا في شرح الوقایة بما یلبسہ في بیتہ ولا یذھب بہ إلی الأکابر، والظاہر أن الکراہة تنزیہیة۔ (الدر المختار مع رد المحتار، ٢/٤٠٧ ط: مکتبة زکریا دیوبند) 


اسی طرح مجمع الأنہر میں ہے۔

وفي ثیاب البذلۃ۔۔۔۔۔ وہي ما یلبس في البیت ولا یذہب بہ إلی الأکابر؛ لأنہا لا تخلو عن النجاسة القلیلة وعن الأوساخ الکریہة (مجمع الأنہر، ١/١٨٨ ط: دار الکتب العلمیة بیروت)۔


اسی طرح مراقي الفلاح مع حاشیة الطحطاوي ہے۔

ورأی عمر رضي اللہ عنہ رجلاً فعل ذلک فقال: أرأیت لو کنت أرسلتک إلی بعض الناس أکنت تمر في ثیابک ہذہ؟ فقال: لا، فقال عمر رضي اللہ عنہ: اللہ أحق أن تتزین لہ (مراقي الفلاح مع حاشیة الطحطاوي ص: ۳۵۹، ط: دار الکتب العلمیہ بیروت)


اسی طرح رومال باندھنے کی صورت میں ضروری ہے کہ پورا سر دھنپ جائے اگر آس پاس کپڑا باندھ دیا جائے اور درمیان میں کھلا چھوڑدیا جائے تو مکروہ ہے، یعنی نماز پڑھتے ہوئے سر پر ٹوپی کے بجائے اس طرح رومال باندھنا کہ سر کا درمیانی حصہ کھلا رہے مکروہ ہے۔


فتاوی خانیہ میں ہے

ویکرہ الاعتجار وھو ان یشد راسہ بالمندیل و یترک وسط راسہ (باب الحدث فی الصلاة وما یکرہ فیھا وما لا یکرہ، ١/٥٧)


نماز میں لااُبالی پن میں یا موجودہ زمانہ کے فیشن کی وجہ سے یا کاہلی، سستی اور لاپرواہی کی بنا پر ٹوپی کے بغیر ننگے سر نماز پڑھتا ہے تو یہ پڑھنا مکروہِ تنزیہی یعنی خلافِ اولی ہے، البتہ اگر کبھی کسی کے پاس ٹوپی نہ ہو، اور فوری طور پر کسی جگہ سے میسر بھی نہ ہوسکتی ہو، تو اس صورت میں ننگے سر نماز پڑھنے کی وجہ سے کراہت نہیں ہوگی، اور اگر اللہ کے سامنے اپنی عاجزی اور تذلُّل دکھانے کے لیے بغیر ٹوپی کے نماز پڑھتا ہے تو درست ہے،


الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے۔

وصلاته حاسراً أي كاشفاً رأسه للتكاسل ولا بأس به للتذلل ۔۔۔۔۔ قوله: للتكاسل أي لأجل الكسل، بأن استثقل تغطيته ولم يرها أمراً مهماً في الصلاة فتركها لذلك، وهذا معنى قولهم تهاوناً بالصلاة وليس معناه الاستخفاف بها والاحتقار؛ لأنه كفر، شرح المنية. قال في الحلية: وأصل الكسل ترك العمل لعدم الإرادة، فلو لعدم القدرة فهو العجز۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٢/٤٠٧)


صورت مسئولہ میں اوپر کی تفصیل کے مطابق 

(١) پلاسٹک کی ٹوپیاں عام طور پر اچھی نہیں سمجھی جاتیں اور نماز کے علاوہ عار اور شرم کی وجہ سے عام حالات میں لوگ یہ ٹوپیاں نہیں پہنتے اس لیے پلاسٹک کی ٹوپیاں پہن کر نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی اور خلافِ اولی ہے

 (٢) رومال یا کسی کپڑے کو باندھ کر نماز ادا کریں کو پورا سر دھنپنا ضروری ہے اگر بیچ کا حصہ کھلا رہے گا تو نماز مکروہ تنزیہی ہوگی 

(٣) رومال باندھ کر نماز پڑھنا افضل ہے، البتہ نماز مذکورہ ساری صورتوں میں درست ہوجائے گی۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا