سوال
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ امید ہے کہ تمام علماء حضرات عافیت سے ہونگے۔زید رب سے دعائیں مانگ رہا ہے کہ اے رب زندگی بہتر ہو تو صحتیابی دے دیجیئے۔اور اگر موت بہتر ہو تو اپنے پاس بلا لیجیۓ۔کیا ایسی دعائیں مانگ سکتے ہیں اور کیا ایسی دعائیں مانگ کر زید گناہ گار تو نہیں ہو گا ؟
سائل: عبدالجبار میرٹھ
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
دنیاوی مصائب و آلام، آفات و بلیات، معاشی تنگ دستی، اور بیماریوں سے تنگ آکر موت کی تمنا کرنا شرعاً جائز نہیں ہے؛ کیونکہ یہ سب انسانی زندگی کا لازمہ ہے، اور تقدیر کا حصہ ہے، جس پر صبر کرنا، صبر کی اقسام میں داخل ہے، جس کے بدلہ اُسے اللہ پاک کی خوشنودی، اُس کی نیکیوں میں اضافہ اور آخرت میں درجات کی بلندی ملا کرتی ہے، اللہ کے رسول کا فرمان عالی ہے کہ تم میں سے کوئی شخص موت کی تمنا اُس مصیبت کی وجہ سے نہ کرے، جو اُسے پہنچی ہے، اور اگر ایسا کرنا ضروری ہی سمجھے تو یہ کہے کہ اے اللہ جب تک میرا زندہ رہنا میرے لیے بہتر ہے، اُس وقت تک مجھے زندہ رکھ، اور مرجانا میرے لیے بہتر ہے تو مجھے اپنے پاس بلالیجئے۔
صورتِ مسؤلہ میں زید کا دعا مانگنا کہ اے رب زندگی بہتر ہو تو صحتیابی دے دیجیئے، اور اگر موت بہتر ہو تو اپنے پاس بلا لیجیۓ، ان جملوں سے دعا کرنے سے وہ گنہگار نہیں ہوگا البتہ بہتر یہ ہے کہ وہ ان جملوں سے دعا کریں جو حدیث میں وارد ہے، کہ (اے اللہ جب تک میرا زندہ رہنا میرے لیے بہتر ہے، اُس وقت تک مجھے زندہ رکھ، اور مرجانا میرے لیے بہتر ہے تو مجھے اپنے پاس بلالیجئے)
شامی میں ہے۔
يكره تمنى الموت لغضب أو ضيق عيش إلا لخوف الوقوع في معصية أي فيكره لخوف الدنيا لا الدين؛ لحديث: فبطن الأرض خير لكم من ظهرها خلاصة.
قوله: أي فيكره بيان لحاصل كلام المصنف، وعبارة الخلاصة: رجل تمنى الموت لضيق عيشه أو غضب من عدوه يكره لقوله عليه الصلاة والسلام، لا يتمنى أحدكم الموت لضر نزل به وإن كان لتغير زمانه وظهور المعاصي فيه مخافة الوقوع فيها لا بأس به؛ لما روي عن النبي عليه الصلاة والسلام في مثل هذه الصورة، قال فبطن الأرض خير لكم من ظهرها اهـ. أقول: والحديث الأول في صحيح مسلم لا يتمنين أحدكم الموت لضر نزل به فإن كان لا بد متمنيا فليقل: اللّٰهم أحيني ما كانت الحياة خيراً لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيراً لي۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٩/٦٠١) واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں