سوال
اگرفرض نمازمیں سجدہ سہوں واجب ہوجائے اور سہو کا ایک سجدہ کیاہے، تو نماز ہوجائےگی کیا؟ جواب مرحمت فرماے۔
سائل: محمد عامر میواتی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
نماز میں واجب کو چھوڑنے سے یا واجب یا فرض میں تاخیر کرنے کی وجہ سے سجدۂ سہو لازم ہوتا ہے، اور چونکہ سجدہ سہو میں دو سجدے کرنا واجب ہیں، لہذا کسی نے صرف ایک سجدہ کیا تو سجدہ سہو ادا نہیں ہوگا، اسی طرح اگر سجدہ سہو کرنا بھول گیا تو اب اس نماز کا وقت گزرنے سے پہلے پہلے اعادہ واجب ہوگا، وقت گزرنے کے بعد اعادہ مستحب ہوگا۔
البتہ سلام پھیرنے کے بعد یاد آئے اور ابھی نماز کے توڑنے والی کو چیز نہیں کی ہے تو فوری طور پر سجدہ سہو کے دو سجدے کرکے تشہد وغیرہ پڑھ کر نماز مکمل کی جاسکتی ہے، اور اگر سلام پھیر نے کے بعد نماز کے منافی کوئی عمل ہو گیا ہو تو سجدۂ سہو ادا نہیں ہوا، اعادہ واجب ہوگا
شامی میں ہے۔
يجب بعد سلام واحد عن يمينه فقط لأنه المعهود، وبه يحصل التحليل وهو الأصح بحر عن المجتبى۔ وعليه لو أتى بتسليمتين سقط عنه السجود؛ ولو سجد قبل السلام جاز وكره تنزيها. وعند مالك قبله في النقصان وبعده في الزيادة، فيعتبر القاف بالقاف والدال بالدال سجدتان۔ (الدر المختار ٢/٥٤٠)
اسی طرح البحر الرائق میں ہے۔
قوله: يجب بعد السلام سجدتان بتشهد وتسليم بترك واجب وإن تكرر بيان لأحكام الأول وجوب سجدتي السهو وهو ظاهر الرواية لأنه شرع لرفع نقص تمكن في الصلاة ورفع ذلك واجب وذكر القدوري أنه سنة كذا في المحيط وصحح في الهداية وغيرها الوجوب لأنها تجب لجبر نقصان تمكن في العبادة فتكون واجبة كالدماء في الحج ويشهد له من السنة ما ورد في الأحاديث الصحيحة من الأمر بالسجود والأصل في الأمر أن يكون للوجوب ومواظبة النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه على ذلك وفي معراج الدراية إنما جبر النقصان في باب الحج بالدم وفي باب الصلاة بالسجود؛ لأن الأصل أن الجبر من جنس الكسر وللمال مدخل في باب الحج فيجبر نقصانه بالدم ولا مدخل للمال في باب الصلاة فيجبر النقصان بالسجدة. فرجعنا إلى قوله المروي في سنن أبي داود أنه عليه الصلاة والسلام قال: لكل سهو سجدتان بعد السلام. وفي صحيح البخاري في باب التوجه نحو القبلة حيث كان في حديث قال فيه: إذا شك أحدكم في صلاته فليتحر الصواب فليتم عليه ثم ليسلم ثم ليسجد سجدتين فهذا تشريع عام قولي بعد السلام عن سهو الشك والتحري ولا قائل بالفصل بينه وبين تحقق الزيادة والنقص۔ (البحر الرائق ١/١٦٢) واللہ اعلم بالصواب
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں