ہفتہ، 19 فروری، 2022

مسح سر کا مسنون طریقہ کیا ہے سوال نمبر ١٦٣

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

گردن پر مسح کیسے کیا جائے، نیز کان میں شہادت کی انگلی گھمانا اور انگوٹھے کو کان کے اوپر گھمانا یہ کیا ہے وضاحت فرمائیں؟

سائل: عبد الرحمن کمال پور


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


مسح علی الرأس کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ: ہتھیلی اور تمام انگلیوں کو سر کے اگلے حصہ پر رکھ کر پورے سر کو مسح کرتے ہوئے پیچھے تک لے جائے، پھر اس کے بعد انگشت شہادت کے ذریعہ سے کان کے اگلے حصہ پر مسح کیا جائے اور دونوں انگوٹھوں کے ذریعہ سے کان کے باہری حصہ کی طرف مسح کیا جائے، یہی مسنون طریقہ ہے۔ اور یہی فقہاء نے لکھا ہے۔

گردن کے مسح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کی پشت کو گدی پر رکھ کر نیچے اطراف کی جانب کھینچا جائے اور کانوں کے نیچے پہنچنے پر اٹھالیا جائے۔ اس سے گدی اور کانوں کے نچلے حصہ دونوں کا مسح ہوجائے گا۔ اور دونوں پر مسح کرنے کا ذکر احادیث مبارکہ میں موجود ہے؛ اس لیے دونوں کا مسح کرنا چاہیے۔


ترمذی اور ابو داؤد شریف میں ہے۔

عن عبد اللہ بن زید أن رسول اللہ ﷺ مسح رأسہ بیدیہ، أقبل بہما وأدبر، بدأ بمقدم رأسہ، ثم ذہب بہما إلی قفاہ، ثم ردہما حتی رجع إلی المکان الذي بدأ منہ ، ثم غسل رجلیہ۔ (ترمذي شریف، باب ما جاء في مسح الرأس، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۱۵، دارالسلام، رقم: ۳۲، سنن أبي داؤد، باب صفۃ وضوء النبي ﷺ، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۱۴، دارالسلام، رقم: ۱۱۸)


شامی، البحرالرائق اور فتاوی هنديةمیں ہے

والأظهر أن یضع کفیه وأصابعه علی مقدم رأسه ویمدهما إلی القفا علی وجه یستوعب جمیع الرأس۔ (ردّالمحتار علی الدُّرالمختار، سنن الوضوء ١/١٢١)۔۔ (البحرالرائق، سنن الوضوء:١/٢٤)ومثله في الهندية۔ ١/٧ الفصل الثاني في سنن الوضوء.)


فتح القديرمیں ہے

والمسنون في كيفية المسح: أن يضع كفيه وأصابعه على مقدم رأسه آخذاً إلى قفاه على وجه يستوعب، ثم يمسح أذنيه على ما يذكره، وأما مجافاة السباحتين مطلقاً ؛ ليمسح بهما الأذنين والكفين في الإدبار ؛ ليرجع بهما على الفودين، فلا أصلَ له في السنة۔ (فتح القدير للكمال ابن الهمام ١/٢٠)


حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي الفلاح میں ہے۔

والأظہر: أن یضع کفیہ وأصابعہ علی مقدم رأسہ، ویَمُدَّہما إلی قفاہ علی وجہ مستوعب جمیع الرأس، ثم یمسح أذنیہ بإصبعیہ، واختارہ قاضیخان، وقال الزاہدي: ہکذا روي عن أبي حنیفۃ ومحمد -إلی قولہ- وما فی الخلاصۃ وغیرہا من أنہ یضع علی مقدم رأسہ من کل ید ثلاثۃ أصابع -إلی قولہ- ففیہ تکلف ومشقۃ، کما في الخانیۃ: بل قال الکمال: لا أصل لہ فی السنۃ۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، أشرفي، ص ۷۲)


وما قیل: من أنہ یجافی المسبحتین والإبہامین لیمسح بہما الأذنین والکفین لیمسح بہما جانبی الرأس خشیۃ الاستعمال، فقال في الفتح: لا أصل لہ في السنۃ؛ لأن الاستعمال لایثبت قبل الانفصال، والأذنان من الرأس۔ (شامي، کتاب الطہارۃ، مطلب في تصریف قولہم، زکریا ۱/ ۲۴۳، کراچی ۱/ ۱۲۱) فقط و اللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم


إعلاء السنن میں ہے۔

من توضأ ومسح سالفتیه وقفاه أمن من الغل یوم القیامة۔ (إعلاء السنن ۱۲۳/۱ باب مسح الرقبة)

أیضا

فلوثبت الحدیث دل علی مسح العنق من قبل القفا مع جانبیه والحلقوم خارج عنهما (حاشیة إعلاء السنن)۔ واللہ اعلم بالصواب۔

العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: