سوال
حج کب فرض ہوا؟ اور کیا حضور ﷺ نے فرضیت سے قبل کوئی حج کیا؟
سائل: حارث جمالی ہریدوار
الجواب وباللّٰہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
حج کی فرضیت کے سلسلہ میں علماء کے متعدد اقوال ہیں: پہلا قول سن ھجری٥ کا۔۔۔ دوسرا قول سن ھجری٦ کا۔۔۔ تیسرا قول سن ھجری ٩ کا
مرقات شرح مشکوۃ میں ہے۔
فرضیۃ الحج کانت سنۃ تسع أو سنۃ خمس أو سنۃ ست۔ (مرقاۃ، کتاب المناسک، الفصل الأول، کوئٹہ ۵/ ۲۶۳،)
لیکن علامہ شامی نے ٩ھجری کے قول کو ترجیح دی ہے، شامی میں ہے۔
فرض سنة تسع وإنما أخره عليه الصلاة والسلام لعشر لعذر مع علمه ببقاء حياته ليكمل التبليغ "اھ
اور رد المحتار میں ہے کہ وقدم الأول لما في حاشيته للشلبي عن الهدي لابن القيم أن الصحيح أن الحج فرض في أواخر سنة تسع ، وأن آية فرضه هي قوله تعالى - { ولله على الناس حج البيت } - وهي نزلت عام الوفود أواخر سنة تسع وأنه صلى الله عليه وسلم لم يؤخر الحج بعد فرضه عاما واحدا ، وهذا هو اللائق بهديه وحاله صلى الله عليه وسلم وليس بيد من ادعى تقدم فرض الحج سنة ست أو سبع أو ثمان أو تسع دليل واحد ، وغاية ما احتج به من قال سنة ست أن فيها نزل قوله تعالى - { وأتموا الحج والعمرة لله } - وهذا ليس فيه ابتداء فرض الحج وإنما فيه الأمر بإتمامه إذا شرع فيه فأين هذا من وجوب ابتدائه۔ ( رد المحتار ج ٣/٤٥٠ )
اسی طرح فتح القدیر میں ہے۔
فإنہ علیہ الصلاۃ والسلام حج سنۃ عشر، وفرضیۃ الحج کانت سنۃ تسع۔ (فتح القدیر، کتاب الحج، زکریا ۲/ ٤١٩)
البتہ معارف القرآن میں حضرت مفتی شفیع صاحب سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ١٩٦ کے تحت جمہور کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: جمہور کے قول کے مطابق حج کی فرضیت ہجرت کے تیسرے یعنی غزوہ احد کے سال میں سورة آ لِ عمران کی اس آیت (97) سے ہوتی ہے، وَلِلّٰهِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ (الآیہ ابن کثیر) اسی آیت میں فرضیت حج کی شرائط کا بیان اور باوجود قدرت ہونے کے حج نہ کرنے پر سخت وعید مذکور ہے،
مذکور الصدر آٹھ آیتوں میں سے پہلی آیت وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّٰهِ باتفاق مفسرین قصہ حدیبیہ میں نازل ہوئی جو 6 ہجری میں واقعہ ہوا ہے اسی سے یہ معلوم ہوگیا کہ اس آیت کا مقصد حج کی فرضیت بتلانا نہیں وہ پہلے بتلائی جاچکی ہے بلکہ اس جگہ حج وعمرہ کے کچھ خاص احکام بتلانا مقصود ہے،
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کے بعد سے ہجرت تک تین حج ادا فرمائے ، فرضیت حج کا حکم نازل ہونے کے بعد آپ نے ایک حج فرمایا جس کو حجۃ الوداع، حجۃ الاسلام کہتے ہیں۔
حدیث میں ہے۔
عن جابر بن عبدالله حجَّ النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ثلاثَ حججٍ : حجتينِ قبل أن يُهاجرَ وحجَّةً قرنَ معها عمرةً. (السنن الكبرى للبيهقي ٥/١٢ (أخرجه الترمذي ٨١٥۔۔وابن ماجه ٣٠٧٦ مطولاً) (والدارقطني ٢/٢٧٨)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین حج کئے، دو حج ہجرت سے پہلے اور ایک حج ہجرت کے بعد عمرے کے ساتھ۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں