بدھ، 9 فروری، 2022

ایمان کے درجات اور اس میں کمزوری کی علامات

 سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان متین مسلہ مذکورہ کے بارے میں - 

ایمان کے کتنے درجات ہیں مطلب کیا ہے ایمان کے درجات ہونے کا مزید حضرت یہ کہ: ایمان کے کمزور ہونے کی کیا کیا علامتیں ہیں۔ 

بعض لوگ معمولی ترک سنت پر بھی بول دیتے ہیں کہ یہ ایمان کی کمزور ہونے کی علامت ہے      حضرت مفتی صاحب سے گزارش ہے کہ ان دونوں پہلوؤں پر مضبوط دلائل کے ساتھ روشنی ڈالے ہم سب آپ حضرات کے لئے دعا گوں ہیں کہ اللہ تعالیٰ دونوں جہانوں میں سرخرو عطا فرمائے آمین جزاکم اللہ تعالیٰ جزاء حسنا۔

سائل: ریاض رحمانی سپولوی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


ایمان کا لغوی معنی ہے امن دینا، اعتماد کرنا، کسی کو سچا سمجھ کرزبان اور قلب سے کسی امر کی تصدیق کرنا، اسے قبول کرنا اور اس کی بات پر یقین کرنا، وغیرہ وغیرہ۔ ایمان کا شرعی معنی یہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کی جو بات قطعی طور پر ثابت ہے، اُسے دل وجان سے تسلیم کرنا۔ یعنی آپ حضور کو صادق  سمجھیں، آپ کی رسالت پر دل سے اعتقاد رکھیں اور زبان سے اس کی گواہی وشہادت دیں۔


ایمان کی حقیقت کیا ہے تو اس کی حقیقت اصل میں تصدیق قلبی ہے اور رہا زبان سے اس کا اقرار کرنا تو یہ اقرار صرف اس لئے ہے، تاکہ ظاہر میں اب آپ پر مسلمان ہونے کے احکام جاری کئے جاسکیں، محدثین کے یہاں ایمان کے تین اجزاء ہیں۔ ١۔۔۔تصدیق بالقلب، ٢۔۔۔اقرار باللسان ٣۔۔۔عمل بالارکان۔


اس سلسلہ میں محدثین نے کافی تفصیل بیان کی ہے مجموعی اعتبار سے اتنا سمجھئے کہ ضروریات دین پر ایمان لانا ضروری ہے۔ ضروریاتِ دین میں سے کسی ایک کے انکار سے آدمی دائرۂ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ ضروریاتِ دین بہت ساری ہیں، مثلاً: اللہ کی توحید اور اس کی صفات پر ایمان لانا، فرشتوں، آسمانی کتابوں، اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسولوں، قیامت، تقدیر، موت کے بعد زندہ اٹھائے جانے پر ایمان لانا، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، جہاد وغیرہ ارکان اسلام کی فرضیت کا قائل ہونا، سود، زنا، جھوٹ اور فرائض اسلام کی عدم ادائیگی کی حرمت کا قائل ہونا وغیرہ۔


درجاتِ ایمان

ایمان کے درجات لا تعداد ہے جہاں احادیث میں اعداد کی قلت وکثرت بیان ہوئی ہے  وہاں شارحینِ حدیث کے بیان کے مطابق عدد کے ذکر سے کسی خاص تعداد کا تعین مقصود نہیں بلکہ اہل عرب کے یہاں یہ اسلوب محاورہ ہے جو کثرت کے معنوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی  اس حدیث میں ایمان کے ستر شعبوں  سے مراد یہ ہے ایمان کے بہت سے درجات ہیں اور ایمان کے درجوں سے مراد وہ تمام اعمال واخلاق ،ظاہری اور باطنی وہ سب احوال ہیں جو کسی دل میں ایمان کے آجانے کے بعد اس کے نتیجہ اور ثمرہ کے طور پر اس میں پیدا ہوجانے چاہئے جسے کہ سرسبز وشاداب درخت سے برگ وبار نکلتے ہیں ۔ اس طرح گو یا تمام اعمالِ خیر واخلاق حسنہ واحوال صالحہ ایمان کے شعبے اور درجات ہیں۔ البتہ ان کے درجات مختلف ہیں۔ بعض احادیث میں ایمان کا سب سے اعلیٰ شعبہ لاالہ الا اللہ یعنی توحید کی شہادت کو بتلایا گیا ہے اور اس کے مقابلے میں ادنی درجے کی چیز راستے سے تکلیف پہنچانے والی چیزوں کے ہٹانے کو قرار دیا گیا ہے۔ اب ان کے درمیان جس قدر بھی امور خیر کا تصور کیاجاسکتا ہے۔ وہ سب ایمان کے درجات، شعبے اور اس کی شاخیں ہیں۔ خواہ ان کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے اور سنن و مستحبات سے ہو یا عبادات ومعاملات سے ہو اور ظاہر ہے کہ ان کا عدد سینکڑوں تک پہنچے گا۔ ایمان کے شعبوں سے متعلق مشہور محدث امام بیہقی کی تصنیف شعب  الایمان ہے، جس میں توحید اور راستے سے  اذیت دہ شے  ہٹانے کے درمیان جس قدر بھی نیک کاموں کا تصور کیاجاسکتا ہے اس کو بیان کیا ہے۔ 


ایمان کے شعبے اور درجات محدیثین نے حدیث جبریل علیه السلام کے ضمن میں نقل فرمائیں ہے، اور اس کو حدیث جبریل اس وجہ سے کہتے ہیں کہ اس میں سائل حضرت جبریل علیه السلام ہے، ابو هریره رضی الله عنه سے بخاری میں, اور مختلف کتابوں میں مروی ہے, یہ حدیث اگر متواتر نہیں تو مشہور ضرور ہے۔


صحیح بخاری۔ کتاب الایمان کا بیان۔ باب: جبرائیل علیہ السلام کا نبی کریم ﷺ سے ایمان، اسلام، احسان اور قیامت کے علم کے بارے میں پوچھنا۔ 


حدیث نمبر: 50  

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَارِزًا يَوْمًا لِلنَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا الْإِيمَانُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ الْإِيمَانُ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَبِلِقَائِهِ وَرُسُلِهِ وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا الْإِسْلَامُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ الْإِسْلَامُ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ وَلَا تُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، ‏‏‏‏‏‏وَتُؤَدِّيَ الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَتَصُومَ رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا الْإِحْسَانُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَتَى السَّاعَةُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، ‏‏‏‏‏‏وَسَأُخْبِرُكَ عَنْ أَشْرَاطِهَا إِذَا وَلَدَتِ الْأَمَةُ رَبَّهَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا تَطَاوَلَ رُعَاةُ الْإِبِلِ الْبُهْمُ فِي الْبُنْيَانِ فِي خَمْسٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تَلَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ سورة لقمان آية 34، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَدْبَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ رُدُّوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَرَوْا شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَذَا جِبْرِيلُ، ‏‏‏‏‏‏جَاءَ يُعَلِّمُ النَّاسَ دِينَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ:‏‏‏‏ جَعَلَ ذَلِك كُلَّهُ مِنَ الْإِيمَانِ.

ترجمہ:

ابوہریرہ ؓ سے نقل کیا کہ  ایک دن نبی کریم  ﷺ  لوگوں میں تشریف فرما تھے کہ آپ کے پاس ایک شخص آیا اور پوچھنے لگا کہ ایمان کسے کہتے ہیں۔ آپ  ﷺ  نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پاک کے وجود اور اس کی وحدانیت پر ایمان لاؤ اور اس کے فرشتوں کے وجود پر اور اس  (اللہ)  کی ملاقات کے برحق ہونے پر اور اس کے رسولوں کے برحق ہونے پر اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے پر ایمان لاؤ۔ پھر اس نے پوچھا کہ اسلام کیا ہے؟ آپ  ﷺ  نے پھر جواب دیا کہ اسلام یہ ہے کہ تم خالص اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور نماز قائم کرو۔ اور زکوٰۃ فرض ادا کرو۔ اور رمضان کے روزے رکھو۔ پھر اس نے احسان کے متعلق پوچھا۔ آپ  ﷺ  نے فرمایا احسان یہ کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اگر یہ درجہ نہ حاصل ہو تو پھر یہ تو سمجھو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی۔ آپ  ﷺ  نے فرمایا کہ اس کے بارے میں جواب دینے والا پوچھنے والے سے کچھ زیادہ نہیں جانتا  (البتہ)  میں تمہیں اس کی نشانیاں بتلا سکتا ہوں۔ وہ یہ ہیں کہ جب لونڈی اپنے آقا کو جنے گی اور جب سیاہ اونٹوں کے چرانے والے  (دیہاتی لوگ ترقی کرتے کرتے)  مکانات کی تعمیر میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کریں گے  (یاد رکھو)  قیامت کا علم ان پانچ چیزوں میں ہے جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی کہ اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے کہ وہ کب ہوگی  (آخر آیت تک)  پھر وہ پوچھنے والا پیٹھ پھیر کر جانے لگا۔ آپ  ﷺ  نے فرمایا کہ اسے واپس بلا کر لاؤ۔ لوگ دوڑ پڑے مگر وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ آپ  ﷺ  نے فرمایا کہ وہ جبرائیل تھے جو لوگوں کو ان کا دین سکھانے آئے تھے۔ ابوعبداللہ  امام بخاری  فرماتے ہیں کہ نبی کریم  ﷺ  نے ان تمام باتوں کو ایمان ہی قرار دیا ہے۔


اس حدیث جبریل سے معلوم ہوتا ہے کہ دین تین چیزوں سے عبارت ہے۔

ایمان۔جملہ ایمانیات کے ساتھ ۔ اور اسلام  پوری اسلامی شریعت  اور اس کے احکامات  جن پر عمل کرنا واجب ہے نواہی جن سے اجتناب ضروری ہے، ان سب کو اسلام شامل ہے۔ اور احسان اپنے درجات کے ساتھ ۔ اس کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ بندہ جب عباد ت کرے تو یہ سمجھے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔اور اگر وہ اللہ کو نہیں دیکھ رہا ہے تو کم سے کم یہ سمجھے کہ اللہ تو  اسے ہر حال میں دیکھ رہا ہے۔


اس حدیث جبریل سے مسلمانوں کو یہ واضح درس ملتاہے کہ ہمارا دین جسے اسلام کہتے ہیں اس کے تین عناصر اور اجزاء ہیں ۔ اور جزء اس چیز کو کہتے ہیں کہ اگر وہ مفقود ہوجائے تو کل ہی مفقود ہوجاتاہے۔تو یہ تینوں اجزاء ہمارے دین کی ہیئت ترکیبیہ ہیں۔دین کی تشکیل ان تین چیزوں کے مجموعے سے ہوتی ہے ۔ تو اس لئے ہمیں ایمان میں کمال، اور اسلام پر اس کے تمام احکامات کے ساتھ عمل  اور احسان کو اس کے جملہ درجات کے ساتھ اپناتے ہوئے اللہ سے مانگنا چاہئے تاکہ ہمیں  ان میں اعلیٰ درجات حاصل ہو یہی ہمارا دین ہے۔ (مستفاد: کشف الباری شرح بخاری، انعام الباری شرح بخاری، انوار الباری شرح بخاری، فتاوی بنوریہ فتاوی اور دارالعلوم دیوبند)


لہذا اس پورے مضمون اور تفصیل سے  ایمان کے درجات اور ایمان کے کمزور ہونے کا مطلب واضح ہوگیا۔

ایمان کی کمزوری اللہ تعالی کے ساتھ تعلق کمزور ہو جائے، انسان اطاعت اور عبادت میں سستی کا شکار ہو جائے، نیکی کیلیے کمزور ہمت افراد کی صحبت اختیار کرے، دنیا میں مگن ہو کر آخرت بھول جائے، یہ حقیقت ذہن سے اوجھل ہو جائے کہ یہ دنیا فانی ہے، اسی طرح اللہ تعالی سے ملاقات کی تیاری  میں کمزوری آجائے تو یہ سب ایمان میں کمزوری کی علامات ہے۔

جہاں تک سنتوں کی بات ہے اور اس جملے سے قائل کا مقصد عرفی اعتبار سے کہنا ہے یعنی لوگ ویسے بول دیتےہیں عادتاً تب تو کوئی مسئلہ نہیں ہے اور شرعی اعتبار سے ہو تو یہ درست نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: