سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اور بزرگان دین مسلہ ذیل کے بارے میں، اگر کسی مسلمان کا غیر مسلم بھائی سے دوستی یاری کا تعلق ہو تو کیا وہ مسلمان غیر مسلم بھائی کے لئے منت یا کوئی صدقہ وغیرہ کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اس بات کی مکمل روایت و آثار کی روشنی میں وضاحت فرمائیں گے۔
مزید یہ حضرت کہ بھائی چارہ یا نو مسلم بھائی سے سماجی تعلقات کا کیا حکم ہے؟
قرآن وحدیث کی روشنی مدلل جواب عنایت فرمائیے گا عنایت در عنایت ہوگی جزاکم اللہ تعالیٰ جزاء حسنا۔
سائل: ریاض رحمانی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
حضرات علمائے کرام کی تصریحات کے مطابق دو شخصوں یا دو جماعتوں میں تعلقات کے مختلف درجات ہوتے ہیں،
١۔۔۔موالات
ایک درجہ تعلق کا قلبی موالات یا دلی موددت و محبت ہے، موالات سے مراد دلی دوستی اور قلبی محبت واحترام ہے، یہ صرف اہل ایمان کے ساتھ خاص ہے، کسی کافر کے لیے دل میں محبت اور مودت رکھنا اور اس کی تعظیم کرنا ناجائز ہے۔
سورة ممتحنہ میں ارشاد ہے،
یا ایھا الذین امنوا لا تتخوا عدوی وعدوکم اولیاء تلقون الیھم بالمودۃ۔
یعنی اے ایمان والو میرے دشمن اور اپنے دشمن یعنی کافر کو دوست نہ بناؤ کہ تم ان کو پیغام بھیجو دوستی کے، پھر اس کے آخر میں فرمایا
ومن یفعلہ منکم فقد ضل سواء السبیل،
جس شخص نے ان سے دوستی کی تو وہ سیدھے راستہ سے گمراہ ہوگیا،
اس کے علاوہ جن آیتوں میں منع وارد ہوا ہے، وہاں یہی درجہ مراد ہے۔
٢۔۔۔مواسات
دوسرا درجہ مواسات کا ہے جس کے معنی نفع رسانی ہمدردی اور خیر خواہی کرناہے، انسانی تعلق کے ناطے اس کی اجازت ان غیر مسلموں کے ساتھ ہے جو مسلمانوں کے ساتھ برسر پیکار نہیں ہیں۔ برسرپیکار کافر کے ساتھ ہمدردی جائز نہیں۔
سورة ممتحنہ کی آٹھویں آیت میں اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے جس میں ارشاد ہے۔
لا ینھکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم وتقسطوا الیھم۔
یعنی اللہ تعالیٰ تم کو منع نہیں کرتا ان سے جو لڑتے نہیں تم سے دین پر اور نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان کے ساتھ احسان اور انصاف کا سلوک کرو۔
٣۔۔۔مدارات
تیسرا درجہ مدارات کا ہے جس کے معنی ہیں ظاہری خوش خلقی و دوستانہ برتاؤ اور روبرو حسن لقاء اپنایا جائے، یہ تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے بشرطیکہ اس سے مقصد ان کی تالیف قلب ہو، یا وہ اپنے مہمان ہوں۔
٤۔۔۔معاملات
چوتھا درجہ معاملات کا ہے کہ ان سے تجارت یا اجرت و ملازمت اور اور صنعت و حرفت کے معاملات کئے جائیں، یہ بھی تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے، جب کہ اس میں عام مسلمانوں کا ضرر نہ ہو، جیسے اہل حرب کو اسلحہ فروخت کرنا وغیرہ ممنوع ہیں۔ اس لیے کہ اس میں مسلمانوں کا ضرر ہے، باقی تجارت وغیرہ کی اجازت دی ہے، اور ان کو اپنا ملازم رکھنا یا خود ان کے کارخانوں اور اداروں میں ملازم ہونا یہ سب جائز ہے۔
٥۔۔۔جلب منفعت یا دفع ضرر
پانچواں درجہ جلب منفعت یا دفع ضرر ہے جلب منفعت کا مطلب ہے کہ کوسی ایسی جگہ پر ہو جہاں ان کے تعلق سے ایمانی فائدہ ہوگا یا اسی کو دینی نفع پہنچانا مقصود ہو اور دفع ضرر کا مطلب ہے کہ ان کے شر اور ضرر رسانی سے اپنے آپ کو بچانا مقصود ہو، تب بھی ان سے مدارات و مواسات کا تعلق کرسکتے ہیں۔ سورة آل عمران کی آیت میں مذکور ہے (اِلَّاۤ اَنۡ تَتَّقُوۡا مِنۡهُمۡ تُقٰٮةً) یعنی ایسی حالت میں جبکہ تم ان سے اپنا بچاؤ کرنا چاہو۔
خلاصۂ کلام
یہ ہوا کہ اسلام میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ نہ تو ایسا رویہ اختیار کیا جائے گا جس سے انسانی اقدار متزلزل ہوں اور نہ ہی ایسا کلی اختلاط روا رکھا گیا ہے جس سے آپس کا فرق اور تمیز مٹ جائے، محدود دائرے میں تعلقات کی گنجائش ہے ۔
مسؤلہ صورت میں غیر مسلموں سے ظاہری خوش خلقی، ہمدردی، خیرخواہی، نفع رسانی اور باہمی لین دین کی حد تک تعلقات رکھنا جائز اور درست ہے، لیکن دلی دوستی اور قلبی محبت وتعلق ایمان والے کے علاوہ کسی سے بھی جائز نہیں،
اور مسلمان کا غیر مسلم بھائی کے لئے منت یا کوئی صدقہ وغیرہ کرنا یہ دلی تعلق کی علامت ہے جو درست نہیں ہے، نو مسلم بھائی یہ مسلمان ہی ہے اس کے لئے مکمل حقوق مسلموں کی طرح ہی ہے لہذا اس سے مکمل سماجی تعلقات رکھنا لازمی حق اور شرعی حکم رہےگا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
(مستفاد: سورۂ آل عمران آیت نمبر ٢٨ کے تحت۔
بیان القرآن، مولانا اشرف علی تھانوی صاحب۔
معارف القرآن، مفتی شفیع صاحب پاکستانی۔
انوار البیان، مولانا عاشق الٰہی بلند شہری۔
آسان ترجمہ قرآن، مفتی تقی عثمانی صاحب)
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں