جمعرات، 24 فروری، 2022

قبر بیٹھ جائے تو دوبارہ مٹی ڈالنے کا شرعی حکم سوال نمبر ١٧٧

 سوال

السلامُ علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

قبر اگر بیٹھ جائے تو اس پر دوبارہ مٹی چڑھا کر درست کرنا چاہئے یا ویسے ہی چھوڑ دینا چاہیے شرعی حکم کیا ہے تحریر فرماییں

سائل: حارث جمالی بلیل پوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


قبر بیٹھ جانے کی صورت میں قبر کے اوپر مٹی ڈال کر درست کردیا جائے، اس لیے کہ دوبارہ مٹی ڈال کر قبر کو صحیح کیا جاسکتا ہے۔


فتاوی ہندیہ میں ہے۔

وإذا خربت القبور فلا بأس بتطیینہا، کذا في التتارخانیة، وہو الأصح ، وعلیہ الفتوی۔ (الہندیة: ۱/۲۲۷، کتاب الصلاة، الباب الحادي والعشرون: في الجنائز۔ زکریا، دیوبند)


حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح میں ہے۔

لا بأس بتطیین القبور خلافاً لما في مختصر الکرخي ․․․․․ وروی البخاری أنہ صلی اللہ علیہ وسلم  رفع قبر ابنہ إبراہیم شبراً، وطینہ بطین أحمر، (حاشیة الطحطاوي علی المراقي: ٤١١ کتاب الصلاة ، فصل في حملہا ودفنہا، المکتبة الفخریة، دیوبند)


ایسے ہی سوال کے جواب میں کتاب النوازل میں حضرت مفتی سلمان صاحب منصورپوری تحریر بقلم ہے۔ اگر قبر بیٹھ جائے تو اس پر دوبارہ مٹی ڈالنا درست ہے۔ (کفایت المفتی ۴؍۳۸، فتاویٰ دارالعلوم ۵؍۳۷۵، امداد الفتاویٰ ۱؍۷۵۸)

(ولا یطیین) لان عبارۃ السراجیۃ کما نقلہ الرحمتي ذکر في تجرید أبي الفضل أن تطیین القبور مکروہ والمختار أنہ لا یکرہ الخ۔ (درمختار مع الشامي ۳؍۱۴۴ زکریا)

سئل محمد بن سیرین ہل تطین القبور؟ فقال: لا أعلم بہ بأسًا۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ / في تطیین القبر وما ذکر فیہ ۷؍۳۶۲ رقم: ۱۱۹۲۳)

المختار التطیین غیر مکروہ وکان عصام بن یوسف یطوف حول المدینۃ ویعمر القبور الخربۃ کما في القہستاني۔ (مجمع الأنہر ۱؍۱۸۷، البحر الرائق ۲؍۱۹۴، حلبي کبیر ۵۹۹، الفتاویٰ الہندیۃ۱؍۱۶۶،الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۷۰-۷۱ رقم: ۳۷۳۵ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۶؍۶؍۱۴۲۱ھ

الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ(کتاب النوازل  ٦/٢١٢)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: