سوال
ایک اور سوال ہے کہ اگر کسی حضرت کویہ معلوم نہ ہوکہ وہ رات میں احتلام ہوا یا نہیں تو وہ دن بھر کی نمازبھی اداکی اورقرآن بھی تلاوت کی پھر بعد میں معلوم ہوا یعنی کچھ علامت ملی ازار میں اب سوال یہ اٹّھاہے کہ اسے اداکی ہوئی نماز اور تلاوت اعادہ کرنی پڑھی گی یانہیں؟ اور اس پر غسل کا کیا حکم ہے؟
سائل: محمد عمیر سعیدی الاشرفی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
احتلام یعنی سوتے ہوئے منی خارج ہونے کے بعد غسل کرنا فرض ہوجاتا ہے، لہذا جب احتلام ہوجانے سے غسل واجب ہوجاتا ہے، تو بلا غسل نماز پڑھنا اور قرآن کریم کو پڑھنا اور چھونا حرام ہے۔
صورت مسئولہ میں احتلام کا قرائن سے یقین ہوجائے اور بے خبری میں نماز اور قرآن کریم کی تلاوت کرلیں تو نمازیں لوٹانی ہوگی اور توبہ و استغفار کریں قرآن کی تلاوت کو دہرانا ضروری نہیں ہے، لیکن محض شک کی وجہ سے دہرانے کا حکم نہیں، البتہ اگر یقین یا قرائن سے ظن غالب ہو تو دہرانی ہوگی۔
بدائع الصنائع میں ہے۔
وأما الغسل المفروض فثلاثة: الغسل من الجنابة، والحيض، والنفاس أما الجنابة فلقوله تعالى: وإن كنتم جنبًا فاطهروا أي: اغتسلوا، و قوله تعالى: يا أيها الذين آمنوا لاتقربوا الصلاة وأنتم سكارى حتى تعلموا ما تقولون ولا جنبًا إلا عابري سبيل حتى تغتسلوا فقط والله أعلم۔ (بدائع الصنائع ١/٣٥)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں