سوال
السلام عليكم و رحمة الله و بركاته
حضرت مفتی صاحب میرا ایک سوال ہے کہ کسی عورت نے قضا روزہ رکھا اور روزے میں اس کو ماہواری شروع ہوگئ تو روزہ اس کا ٹوٹ گیا اب وہ کھا پی سکتی ہے یا نہیں، اسکا جواب مطلوب ہے
سائل:مولانا شعيب صاحب اسلامپوری
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
جب عورت کو روزے کی حالت میں حیض آجائے تو روزہ فاسد ہوجاتا ہے، اس پر کھانے پینے کی کوئی پابندی نہیں کھانا پینا جائز ہے، کیوں کہ حائضہ عورت کے لیے رمضان میں دن کے اوقات میں کھانا پینا مطلقاً جائز ہے۔
نیز فقہاء نے تو حالت حیض میں عورت کو روزہ داروں کی مشابہت اخیتار کرنا اور بھوکا رہنے کی بھی ممانعت فرمائی ہے، کیونکہ حالت حیض میں روزہ رکھنا حرام ہے ، تو کھانے پینے سے رکا رہنا گویا ایک فعل حرام کی مشابہت اختیار کرنا ہے اور یہ جائز نہیں۔
البتہ رمضان المبارک کے احترام کی رعایت کرتے ہوئے بر سر عام کھانے پینے سے بچے رہنا چاہئے کہ ایک تو اس میں رمضان کا احترام ہے، دوسرے یہ حیاء کا تقاضہ بھی ہے ، ورنہ کھانے پینے سے حالت ناپاکی کا اظہار و اعلان ہوگا۔
شامی میں ہے۔
وہل یکرہ لہا التشبہ بالصوم أم لا؟ مال بعض المحققین إلی الأول؛ لأن الصوم لہا حرام فالتشبہ بہ مثلہ۔ (شامی ١/٤٨٥ ط: زکریا،دیوبند)
طحطاوی ؒ فرماتے ہیں
وأما فی حالة تحقق الحیض والنفاس فیحرم الإمساک لأن الصوم منہما حرام والتشبہ بالحرام حرام۔ (الطحطاوی علی مراقی الفلاح ٦٧٨ ط: مکتبہ اشرفی، دیوبند)
البتہ اس کے برعکس اگر حائضہ عورت دن کسی حصہ میں پاک ہوئی ہو تو اب دن کے مابقیہ حصہ میں امساک یعنی کھانے پینے سے روکے رہنا ضروری ہے۔
طحطاوی میں ہے۔
یجب علی الصحیح وقیل یستحب الإمساک بقیة الیوم علی من فسد صومہ ولو بعذر ثم زال وعلی حائض ونفساء طہرتا بعد طلوع الفجر ۔۔۔وعلی حائض ونفساء طہرتا وأما فی حالة تحقق الحیض والنفاس فیحرم الإمساک لأن الصوم منہما حرام والتشبہ بالحرام حرام۔ (الطحطاوی علی مراقی الفلاح ٦٧٨ ط: مکتبہ اشرفی، دیوبند)۔ واللہ اعلم بالصواب
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں