ہفتہ، 19 فروری، 2022

بلا وضو قرآن کریم کو چھونا جائز ہے یا نہیں سوال نمبر ١٥٦

 سوال

الســـــلام علیکم ورحمۃ اللّهُ وبرکاتہ

حصرت امید ہے کہ آپ بخیــــر ہونگے، در اصل معلوم یہ کرنا تھا کـے بغیر وضوء کے قرآن، کریم چھو سکتے ہـے یـا نہیں  اگر ہاں یا نہیں تو دونوں کی دلیل کے ساتھ بحوالا ارشاد فرماے  خُدا حافظ

سائل: شیخ توفیق الرحمان


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


فقہاء نے قرآن کریم کو بلا طہارت مس کرنے کو ناجائز قرار دیا ہے، لہذا قرآن کریم کو اگر ہاتھ میں لے کر پڑھنا ہے تو اس کے لیے باوضو ہونا ضروری ہے، بغیر وضو کے قرآنِ کریم کو چھونا جائز نہیں ہے، یہی جمہور علما ء کامسلک ہے ۔ اور اس کی حرمت کی بنیاد احادیث مبارکہ ہیں۔


امام مالک نے موطأ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مکتوبِ گرامی نقل کیا ہے جو آپ نے حضرت عمرو بن حزم کو لکھا تھا ، جس میں ایک جملہ یہ بھی ہے ’’لایمس القران إلا طاهر‘‘ یعنی قرآن کو وہ شخص نہ چھوئے جو طاہر نہ ہو، اور ابن کثیر نے بھی اللہ کے رسول کے مکتوبِ گرامی کو نقل کیا ہے جو آپ نے حضرت عمرو بن حزم کو لکھا تھا


موطأ لإمام مالک میں ہے۔

أخرج مالک عن عبد اللّٰہ بن أبي بکر بن حزم أن في الکتاب الذي کتبہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لعمرو بن حزم أن لا یمس القرآن إلا طاہرا۔ (الموطأ لإمام مالک، کتاب القرآن، باب الأمر بالوضوء لمن مس القرآن ۱۵۳ رقم: ۱)


تفسیر ابن کثیر میں ہے۔

وعن عبد اللّٰه بن أبي بکر بن محمد بن عمرو بن حزم أن في الکتاب الذي کتبه رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم لعمرو بن حزم أن لا یمس القرآن إلا طاهر. (تفسیر ابن کثیر تحت آیت لاَ یَمَسُّه اِلاَّ الْمُطَھَّرُوْنَ)۔


اور روح المعانی میں روایت مسند عبدالرزاق، ابن ابی داؤد اور ابن المنذر سے بھی نقل کی ہے اور طبرانی و ابن مردویہ نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لایمس القران إلا طاهر‘‘ یعنی قرآن کو ہاتھ نہ لگائے بجز اس شخص کے جو پاک ہو ۔


متفرق تفاسیر میں ہے۔

 لاَ یَمَسُّه اِلاَّ الْمُطَھَّرُوْنَ قال قتادة وغیره: {لاَ یَمَسُّه اِلاَّ الْمُطَھَّرُوْنَ} من الأحداث والأنجاس…، واختلف العلماء في مس المصحف علی غیر وضوء، فالجمهور علی المنع من مسه لحدیث عمرو بن حزم، وهو مذهب علي وابن مسعود وسعد بن وقـاص، وسعید بن زید، وعطاء، والزهري، والنخعي والحکم وحماد، وجماعة من الفقهاء منهم مالک والشافعي. واختلف الروایة عن أبي حنیفة فروي عنه أنه لا یمسه المحدث. روي عنه أنه یمسه ظاهره وحواشیه وما لا مکتوب فیه، وأما الکتاب فلا یمسه إلا طاهر. (تفسیر روح المعاني و القرطبي و مثله في تفسیر الکبیر للفخر الرازي و معارف القرآن  تحت آیت لاَ یَمَسُّه اِلاَّ الْمُطَھَّرُوْنَ)۔ 


التفسير البسيط میں ہے۔

ومذهب الفقهاء في هذه الآية أن الضمير في قوله: (لَّا يَمَسُّهُ) يعود إلى القرآن، والمراد بالقرآن المصحف …. والمراد بقوله: (الْمُطَهَّرُونَ) أي من الأحداث والجنابات “التفسير البسيط تحت آیت لاَ یَمَسُّه اِلاَّ الْمُطَھَّرُوْنَ)



حرمت مس بالقرآن بلا وضو کے سلسلہ میں مزید دلائل ملاحظہ فرمائیں۔


شامی میں ہے۔

ویحرم بہ أي بالأکبر وبالأصغر مس مصحف أي ما فیہ آیۃ کدرہم وجدار۔۔

لایحرم في غیر المصحف إلا بالمکتوب أي موضوع الکتاب۔ (شامي١/٣١٥ زکریا) 


فتاوی عالمگیری میں ہے :

مس المصحف لا يجوز لهما وللجنب والمحدث مس المصحف الا بغلاف متجاف عنه کالخريطة والجلد الغير المشرز لا بماهو متصل به۔ (فتاوی عالمگیری ١/٣٩)


الموسوعة الفقهیة الکویتیة میں ہے۔

اتفق الفقهاء علی أنه یحرم مس المصحف لغیر الطاهر طهارة کاملة من الحدثین الأصغر والأکبر، لکن تختلف عباراتهم في الشروط والتفصیل، فقال أبوحنیفةؒ: یحرم مس المصحف کله أو بعضه، أي مس المکتوب منه ولو آیة علی نقود درهم، أو غیره أو جدار الخ. (الموسوعة الفقهیة الکویتیة ٣/٣٧٦)


الدررالمنتقی اور فتح القدیر میں ہے۔

ولا یجوز لمحدث بأحد الحدثین مس مصحف ولو بیاضه إلا بغلافه المنفصل لا بغلافه المتصل به في الصحیح وعلیه الفتوی، وکره المس بالکم أو بشيء من الثوب الذي علی الماس؛ لأنه تبع له وقیل: لا یکره، وجعله في المحیط قول الجمهور، وتبعه في الدرر والتنویر، ولا یجوز مس درهم فیه سورة أي آیة إلا بصرته؛ لأنها کالغلاف. (الدرالمنتقی مع سکب الأنهر، کتاب الطهارة، دارالکتب العلمیة بیروت١/٤٢). فتح القدیر، کتاب الطهارة، باب الحیض والاستحاضة، مکتبه زکریا دیوبند١/١٧٣)


فتاوی عالمگیری اور ھدایہ میں ہے

لا یجوز لهما ولجنب والمحدث مس المصحف إلا بغلاف متجاف عنه کالخریطة والجلد الغیر المشرز لا بما هو متصل به هو الصحیح۔۔۔ (الفتاوی الهندیة/ کتاب الطهارة ١/٣٩ زکریا۔۔۔ (الهدایة ١/٦٤) واللہ اعلم بالصواب۔


اس سلسلہ میں ایک لنک پیش خدمت ہے اس کا ضرور مطالعہ فرمائیں۔


قرآن مجید کو بغیر وضو چھونے کا حکم: متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ۔


http://library.ahnafmedia.com/136-faqeeh/year1/mar/319-quran-ko-bagar-wozo-cohney-ka-hukam


 العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: