سوال
السلام عليکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ايک عورت کا شوہر فوت ہو گیاہے اور اس آدمی کے دومکان تھے ایک اپنے آباٸی شہر خیر پور میرس سندھ میں دوسرا کراچی میں تھا اور ان دونوں شہروں کے درمیاں میں فاصلہ تقریبا ٧٠٠ کلو میٹر کا فاصلہ ہے اور اس آدمی کی وفات کراچی والے گھر میں ہوٸی جب کے کراچی میں وہ آفیسر تھا اور بیوی بچے بھی اس کے ساتھ کراچی میں تھےاور اس کا بیٹا کراچی میں معذور ہے اور اس کا علاج ادھر گھر میں چل رہاہے اسی حالت میں لیکن بعد میں اس کے لاش کو خیر پورمیں لائی گئی تھی اور اس کی بیوی بھی اس کی لاش کے ساتھ آٸی تھی اب پوچھنا یہ ہے کہ یہ عورت ابھی عدت کہاں گذارے گی کراچی والے گھر میں یا خیر پور میرس میں براۓ مھربانی فقہی دلیل کے ساتھ رہنمائی فر ما کر عند اللہ مأجور ہو جاویں گے
سائل: محمد عبداللہ بن رحیم بخش پاکستان
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
شوہر کے انتقال کے بعد شرعی اعتبار سے عورت کو اسی گھر میں عدت گزارنے کا حکم ہے کہ شوہر کے انتقال کے وقت جس گھر میں وہ بطورِ سکونت رہ رہی تھی۔ لہذا خاوند کی وفات کے وقت جس مکان میں عورت سکونت پذیر ہو اسی مکان میں اس کوعدت پوری کرنالازم ہے۔
صورت مسئولہ میں یہ لکھا ہے کہ وہ دونوں گھروں میں رہائش پذیر تھے، تو چونکہ دونوں گھر ان کے اپنے تھے لہذا اس کے لئے اصولی اعتبار سے تو جہاں شوہر کا انتقال ہوا تھا وہی پر عدت گزارنا لازم ہے لیکن اگر وہاں پر دشواری ہو یا کوئی اور مجبوری ہو تو یہاں پر بھی عدت گذاری جاسکتی ہے۔
ہدایہ اور فتاوی عالمگیری میں ہے۔
وعلی المعتدۃ ان تعتد فی المنزل الذی یضاف الیھا بالسکنی حال وقوع الفرقۃ والموت لقولہ تعالیٰ ولا تخرجوھن من بیوتھن ، والبیت المضاف الیھا ھو البیت الذی تسکنہ وقال علیہ السلام للتی قتل زوجھا اسکنی فی بیتک حتی یبلغ الکتاب اجل‘ وان کان نصیبھا من دارالمیت لا یکفیھا فاخر جھا الورثۃ عن نصیبھم انتقلت لان ھذا انتقال بعذر (ہدایہ ٢/٤٠٨ )فصل فی الحداد فتاویٰ عالمگیری ١/٥٣٥)
بدائع الصنائع میں ہے۔
كذا ههنا، وإذا انتقلت لعذر يكون سكناها في البيت الذي انتقلت إليه بمنزلة كونها في المنزل الذي انتقلت منه في حرمة الخروج عنه؛ لأن الانتقال من الأول إليه كان لعذر فصار المنزل الذي انتقلت إليه كأنه منزلها من الأصل فلزمها المقام فيه حتى تنقضي العدة". فقط والله أعلم بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (٣/٢٠٥) واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں