ہفتہ، 12 فروری، 2022

شوہر کی وفات کے بعد عورت عدت کہاں گزاریں

 سوال

السلام عليکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ايک عورت کا شوہر فوت ہو گیاہے اور اس آدمی کے دومکان تھے ایک اپنے آباٸی شہر خیر پور میرس  سندھ میں دوسرا کراچی میں تھا اور ان دونوں شہروں کے درمیاں  میں فاصلہ تقریبا ٧٠٠ کلو میٹر کا فاصلہ ہے اور اس آدمی کی وفات کراچی والے گھر میں ہوٸی جب کے کراچی میں وہ آفیسر تھا  اور بیوی بچے بھی اس کے ساتھ کراچی میں تھےاور اس کا  بیٹا کراچی میں  معذور ہے اور اس کا علاج ادھر گھر میں چل رہاہے اسی حالت میں  لیکن بعد میں اس کے لاش کو خیر پورمیں لائی گئی تھی اور اس کی بیوی بھی اس کی لاش کے ساتھ آٸی تھی  اب پوچھنا یہ ہے کہ یہ عورت ابھی عدت کہاں گذارے گی کراچی والے گھر میں یا خیر پور میرس میں براۓ مھربانی فقہی دلیل کے ساتھ رہنمائی  فر ما کر عند اللہ مأجور ہو جاویں گے

سائل:  محمد عبداللہ بن رحیم بخش پاکستان


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


شوہر کے انتقال کے بعد شرعی اعتبار سے عورت کو اسی گھر میں عدت گزارنے کا حکم ہے کہ شوہر کے انتقال کے وقت جس گھر میں وہ بطورِ سکونت رہ رہی تھی۔ لہذا خاوند کی وفات کے وقت جس مکان میں عورت سکونت پذیر ہو اسی مکان میں اس کوعدت پوری کرنالازم ہے۔


صورت مسئولہ میں یہ لکھا ہے کہ وہ دونوں گھروں میں رہائش پذیر تھے، تو چونکہ دونوں گھر ان کے اپنے تھے لہذا اس کے لئے اصولی اعتبار سے تو جہاں شوہر کا انتقال ہوا تھا وہی پر عدت گزارنا لازم ہے لیکن اگر وہاں پر دشواری ہو یا کوئی اور مجبوری ہو تو یہاں پر بھی عدت گذاری جاسکتی ہے۔


ہدایہ اور فتاوی عالمگیری میں ہے۔

وعلی المعتدۃ ان تعتد فی المنزل الذی یضاف الیھا بالسکنی حال وقوع الفرقۃ والموت لقولہ تعالیٰ ولا تخرجوھن من بیوتھن ، والبیت المضاف الیھا ھو البیت الذی تسکنہ وقال علیہ السلام للتی قتل زوجھا اسکنی فی بیتک حتی یبلغ الکتاب اجل‘ وان کان نصیبھا من دارالمیت لا یکفیھا فاخر جھا الورثۃ عن نصیبھم انتقلت لان ھذا انتقال بعذر (ہدایہ ٢/٤٠٨ )فصل فی الحداد فتاویٰ عالمگیری ١/٥٣٥)


بدائع الصنائع میں ہے۔

كذا ههنا، وإذا انتقلت لعذر يكون سكناها في البيت الذي انتقلت إليه بمنزلة كونها في المنزل الذي انتقلت منه في حرمة الخروج عنه؛ لأن الانتقال من الأول إليه كان لعذر فصار المنزل الذي انتقلت إليه كأنه منزلها من الأصل فلزمها المقام فيه حتى تنقضي العدة". فقط والله أعلم بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (٣/٢٠٥) واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: