ہفتہ، 19 فروری، 2022

غیر مسلموں کے بھومی پوجن پروگرام میں شرکت کرنے کا شرعی حکم سوال نمبر ١٦٢

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ   

ہمارے گاؤں میں پنچایت بھون کے نام سے ایک مکان کی بنیاد ڈالی جا رہی ہے تو اس موقع پر ایک پروگرام رکھا گیا ہے جس میں مہمان خصوصی کے طور پر گھنپٹ وساوا کو مدعو کیا گیا ہے، اس پروگرام کا نام بھومی پوجن رکھا جس میں باقاعدہ پوجا پاٹ کی جائے گی تو اس پروگرام میں شریک ہونے والے مسلمانوں کے ایمان کا کیا حکم ہوگا ؟ اگر اس میں پوجا پاٹ نہ کی گئی اور صرف بھومی پوجن کے نام سے پروگرام رکھا تھا تو اس میں شرکت کرنے کا کیا حکم ہے؟

سائل: رضوان کوسمبوی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


مسلمان پر واجب ہے کہ ہر حال میں كتاب وسنت کو لازم پکڑے خاص کر فتنوں اور فساد کے عام ہوجانے کے وقت احکامات الہی کو تھامے رکھیں، اور جو لوگ راہ حق سے بھٹک چکے ہیں  انکی گمراہیوں میں پڑنے سے بچے ،کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو اللہ تعالی کی کوئی تعظیم نہیں کرتے، اور نہ ہی اسلام پر کوئی توجہ دیتے ہیں۔


اسی طرح غیرمسلموں کے مذہبی امور میں شرکت کرنا ناجائز اور حرام ہے، کیوں کہ مذاہب میں صرف مذہب اسلام ہی حق اور صحیح مذہب ہے، اس لئے مسلمان کے لئے کوئی ایسا کام جائز نہیں، جس سے غیروں کی کسی مذہبی چیز کی تعظیم وتکریم یا اس کی تعریف وغیرہ لازم آتی ہو بلکہ اس طرح کی چیزوں میں کفر کا اندیشہ ہوتا ہے اس لیے مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہے۔


البتہ اگر سخت مجبوری کی صورت ہو کہ عدم شرکت کی وجہ سے ان کی جانب سے ضرر کا اندیشہ ہے یا ملک میں مذہب کی بنیاد پر منافرت پھیلانے والوں کو مزید منافرت پھیلانے کا موقع ملے گا تو ایسی مجبوری میں ایسے پروگراموں میں شرکت کی گنجائش ہوگی، البتہ جو ان کے خاص مذہبی امور ہے جیسے بھومی پوجن میں پوجا پاٹ وغیرہ کرنا اس میں اپنی طرف سے کسی قسم کی داد و تحسین نہ کی جائے اور اس پر نہ ہی تالیاں بجائی جائے بلکہ خموشی اختیار کی جائے ورنہ اس کے پوجا پاٹ پر داد و تحسین سے بھی کفر کا اندیشہ ہے۔


اور اگر عدم شرکت سے مسلمانوں کا جانی اور مالی نقصان کا اندیشہ نہ ہو تو۔ وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللّہَ ِنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَاب، المائدة  کے تحت ایسی مجلس میں جہاں ان کے مذہبی رسم و رواج ادا کئے جاتے ہو شرکت کرنا درست نہیں ہے۔


فتاوی بزازیہ کی عبارت سے یہی مترشح ہوتا ہے۔

اجتمع المجوس یوم النیروز فقال مسلم: خوب سیرت نہاوند یکفر۔۔۔ وما یھدی المجوس یوم النیروز من أطعمتھم إلی الأشراف ومن کان لھم معرفة لا یحل أخذ ذلک علی وجہ الموافقة معھم وإن أخذہ لا علی ذلک الوجہ لا بأس بہ والاحتراز عنہ أسلم(الفتاوی البزازیة علی ھامش الھندیة، ٤/۳۳۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)


البت سخت مجبوری میں بھی ان کے شرکیہ افعال یا مذہبی امور یا احوال واعمال میں شرکت کرنا قطعا جائز نہیں۔

قرآن پاک کا حکم ہے وَلَا تَرْکَنُوا إِلَی الَّذِینَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ یعنی اے مسلمانو! ظالموں کی طرف ان کے مذہبی امور یا احوال واعمال میں مشارکت و مشابہت سے مت جھکو کبھی تم کو دوزخ کی آگ لگ جائے، جب ادنی میلان اور مشابہت سے دوزخ میں جانے کا خطرہ ہے تو کفریہ اور شرکیہ اعمال کرنا اور مذہبی امور انجام دینا کس قدر سنگین جرم ہوگا، جس کے نتیجہ میں ایمان سلب ہوجانا اور کفر کے گروہ میں شامل ہوجانا کوئی بعید نہیں۔


مسؤلہ صورت میں ایسے پروگرام میں جس میں باقاعدہ پوجا پاٹ وغیرہ ہو مسلمان کا شریک ہونا درست نہیں ہے اور اگر عدم شرکت کی صورت میں جانی یا مالی نقصان کا اندیشہ ہو تو شرکت کی گنجائش توہے لیکن ان کے مذہبی افعال یعنی پوجا پاٹ میں شرکت نہ کریں اور اس پر خوشی کا اظہار بھی نہ کریں نہ ہی تالیاں بجائی جائے اور نہ ہی اس پر ہنسے اور نہ داد و تحسین پیش کریں، اور اگر کسی قسم کا اندیشہ نہ ہو تو اس میں شرکت جائز نہیں ہے، اور اگر افتتاح میں کوئی غیر شرعی امور نہ ہو تو شرکت جائز ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: