سوال
السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک لڑکے کے والد کا انتقال اسکے بچپن میں ہوگیا تھا اور اس کے بعد اس کے چاچا نے انکے اخراجات اٹھائے جیسے اسکول کی فیس، دوائی وغیرہ. اب وہ لڑکا بڑا ہوگیا ہے تو مسئلہ یہ ہے کہ وہ(چاچا)اب اس رقم کا مطالبہ کر رہے ہیں، کیا انکا مطالبہ درست ہے؟ اور کیا اس لڑکے کو وہ رقم واپس ادا کرنی چاہیے اور اگر ادا نہ کرے تو شرعی اعتبار سے کوئی گناہ ہوگا؟ مدلل جواب دیکر عنداللہ ماجور ہوں۔
سائل: محمد مبین دہلی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
شریعت نے کسی کی زندگی کے بقاء کے لیے جو خرچ ضروری قرار دیا ہے وہ نفقہ ہے ، اور انسان کے لئے کھانے پینے کا سامان ، کپڑا اور مکان نفقہ ہے ۔
وجوب نفقہ کے اسباب تین ہیں۔
( ١ ) زوجیت ۔
یعنی بیوی کا نفقہ شوہر پر بیوی ہونے کی وجہ سے واجب ہے ۔
بیوی کا نفقہ نکاح کے نتیجہ میں واجب ہو جا تا ہے ، چاہے بیوی مسلمان ہو یا کتابی ، امیر ہو یا غریب ، تندرست ہو یا بیمار ، اس کا نفقہ شوہر پر واجب ہے ۔
( ۲ ) قرابت ۔
اسی طرح ذی رحم اہل قرابت کا نفقہ اس کے متوقع وارثوں پر ہوتا ہے لہذا چچا سے پہلے پرورش کے حقدار میں سے کوئی نہ ہو تو پرورش کی ذمہداری چچا ہوتی ہے، اسی طرح والدین کا نفقہ اولاد پر اور اولادوکا نفقہ والدین پر واجب ہے۔
( ۳ ) ملک ۔
جس چیز کا آدمی مالک ہو جائے تو اس کو کارآمد رکھنے کے لئے اس پر خرچ کرنا ضروری ہے۔
صورت مسئولہ میں بچے کی پرورش کے حقدار کوئی نہ ہو تو پرورش کرنے کی ذمہداری چچا کی ہوتی ہے، اگر اس نے اپنی طرف سے بغیر کسی شرط کے پرورش کی ہے تو اس کا واپس طلب کرنا درست نہیں ہے اس لئے کہ وہ تبرع ہے، اور تبرعات میں بعد الخرچ واپس طلب نہیں کرسکتے، اور لڑکے پر بھی اس کو واپس کرنا ضروری نہیں ہے اور واپس نہ کرنے کی صورت میں وہ گنہگار نہ ہوگا۔
فتح القدير میں ہے۔
ثـم نـفـقـة الـغيـر تجب على الغير بأسباب : الزوجية ، والقرابة ، والملك . ( فتح القدير : ۳۷٨ / ٤ ، ط : دار الفكر )
بدائع الصنائع میں ہے۔
وَأَمَّا شَرْطُهَا فَمِنْ شَرَائِطِهَا الْعُصُوبَةِ فَلَا تَثْبُتُ إلَّا لِلْعَصَبَةِ مِنْ الرِّجَالِ وَيَتَقَدَّمُ الْأَقْرَبُ فَالْأَقْرَبُ الْأَبُ ثُمَّ الْجَدُّ أَبُوهُ وَإِنْ عَلَا ثُمَّ الْأَخُ لِأَبٍ وَأُمٍّ ثُمَّ الْأَخُ لِأَبٍ ثُمَّ ابْنُ الْأَخِ لِأَبٍ وَأُمٍّ ثُمَّ ابْنُ الْأَخِ لِأَبٍ ثُمَّ الْعَمُّ لِأَبٍ وَأُمٍّ ثُمَّ الْعَمُّ لِأَبٍ ثُمَّ ابْنُ الْعَمِّ لِأَبٍ وَأُمٍّ ثُمَّ ابْنُ الْعَمِّ لِأَبٍ، إنْ كَانَ الصَّبِيُّ غُلَامًا وَإِنْ كَانَتْ جَارِيَةً فَلَا تُسَلَّمُ إلَيْهِ؛ لِأَنَّهُ لَيْسَ بِمَحْرَمٍ مِنْهَا؛ لِأَنَّهُ يَجُوزُ لَهُ نِكَاحُهَا فَلَا يُؤْمَنُ عَلَيْهَا۔ (كِتَابُ الْحَضَانَةِ، فَصْل فِي بَيَان مَنْ لَهُ الْحَضَانَةُ، ٤/٤١ ط: دار الكتب العلمية)
شامی میں ہے۔
وفـي الـدر الـمـخـتـار : ونفقة الغير تجب على الغير بأسباب ثلاثة : زوجية ، وقرابة ، وملك . وفي الشامية : ( قوله وملک ) شامل لنفقة المملوك من بني آدم والحيوانات والـعـقار كما في الدر المنتقى ، لكن في الأخير لايجبر قضاء وفي الثاني خلاف . ( الدر المختار مع رد المحتار :٥/٢٧٨، باب النفقة)
ہدایہ میں ہے۔
وإن وهب هبة لذي رحم محرم منه لم یرجع فیها؛ لقوله علیه السلام: إذا کانت الهبة لذي رحم محرم لم یرجع فیها. رواه البیهقي والدارقطني والحاکم۔ (الهدایة ٣/٢٧٤)
شرح المجلۃ للاتاسی میں ہے:
للواهب أن يراجع عن الهبة قبل القبض بدون رضا الموهوب له ... وهل يكره ذلك كما يكره الرجوع بعد القبض؟ الظاهر أنها لا تخلو عن الكراهة، لأن الرجوع ليس بأقل من الخلف بالوعد (الفصل الأول في حق الرجوع عن الهبة ٣/٣٩٣، ط: رشيدية)
بدائع الصنائع میں ہے:
وأما شرائط الرجوع بعد ثبوت الحق حتى لايصح بدون القضاء والرضا؛ لأن الرجوع فسخ العقد بعد تمامه وفسخ العقد بعد تمامه لا يصح بدون القضاء والرضا كالرد بالعيب في البيع بعد القبض۔ (كتاب الهبة، فصل في حكم الهبة، ج: ٦/١٢٨ ط: سعيد) واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں