جمعرات، 3 فروری، 2022

دینی تعلیم پر اجرت لینے کی صورت میں ثواب کا حکم

 سوال

مفتی صاحب مدرسین مدارسِ دینیہ میں یہ جو اسباق پڑھانے پر اجرت لیتے ہیں تو کیا اس اجرت کے ساتھ ثواب کے مستحق ہونگے یا نہیں، اجرت تو وقت کی لیتے ہیں مگر پہر بھی اگر کوئی شخص پیسے لیتا ہے تو کیا اسکو ثواب ملے گا یا نہیں رہنمائی فرمائیں جزاکم اللہ خیرا

سائل: محمد عبداللہ


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


دینی تعلیم دینا اعلیٰ درجہ کی خدمت ہے شرف کی بات تو یہ ہے کہ بلا اجرت لیے تعلیم دی جائے لیکن ذریعہ معاش کا جائز بندوبست نہ ہونے کی صورت میں دینی تعلیم دے کر اجرت لینا جائز ہے، اور جب دینی تعلیم پر اجرت لینا جائز ہے تو آدمی دنیاوی ضرورت اور وقت فارغ کرکے پڑھانے کی اجرت لے اور دل میں نیت یہ ہو کہ اگر فارغ البالی ہوتی تو میں اجرت نہ لیتا اور پڑھانے سے مقصود کلام اللہ کی اشاعت ہو تو ان شاء اللہ ایسا شخص اجرت لینے کے باوجود ثواب کا مستحق ہوگا اور ا س کو اللہ رب العزت کی رضا نصیب ہوگی۔


علامہ ابنِ عابدین شامی علیہ الرحمہ رد  المحتار میں اجرت لینے والے مؤذن کو اذان دینے کا ثواب ملنے یا نہ ملنے کی بحث میں فرماتے ہیں۔

قال في الشامی: نعم قد یقال: إن کان قصدہ وجہ اللہ تعالی لکنہ بمراعاتہ للأوقات والإشتغال بہ یقل اکتسا بہ عما یکفیہ لنفسہ وعیالہ فیأخذ الأجرة لئلا یمنعہ الاکتباس عن إقامة ہذہ الوظیفیة الشریعة ولولا ذالک لم یأخذ أجرا فلہ الثواب المذکور، بل یکون جمع بین عبادتین: وہما الأذان والسعي علی العیال وإنما الأعمال بالنیات․ (شامی: ۲/۶۰ باب الأذان)


مسؤلہ صورت میں اصل مقصد دین کی خدمت ہو اور تنخواہ اس لئے لیتا ہو کہ اپنا اور اہل وعیال کا گزر بسرکریں اور اہل و عیال کی مجبوری نہ ہوتی تو فی سبیل اللہ کام کرتا اس صورت میں اللہ عزوجل کی رحمت سے امید ہے کہ ثواب کا بھی حقدار ہو گا، اور اعمال کا ثواب کا دارومدار نیتوں پر جیسی نیت ویسا نتیجہ، لیکن اگر کوئی فقط پیسے کمانے کے لیے  یہ کام کرتاہے توان امور  کا جو ثواب بیان ہواہے، وہ اسے  حاصل نہ ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ 


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: