منگل، 22 فروری، 2022

نکاح کے بعد مسجد میں چھوہارے لٹانے کا شرعی حکم سوال نمبر ١٧٣

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب مسٔلہ یہ ہے کہ نکاح کے موقع پر چھوہارے اچھالنا کیسا ہے؟ مسجد کے اندر جو چھوہارے  اچھالے جاتیں ہیں وہ  سنت ہے؟ یا مسجد کے ادب کے خلاف ہے ؟ مفتی صاحب تھوڑا تفصیل سے وضاحت فرمائیں، آپ کی مہربانی ہوگی ۔

عنایت اللہ ابن عبد اللہ پالنپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


شریعت میں خوشی کے موقع پر دعوت اور شرینی کی تقسیم مشروع ہے، اور نکاح بھی ایک خوشی کا موقع ہے اس لئے اس موقع پر اگر باہم تنازع کا اندیشہ نہ ہو تو  چھوہارے یا کوئی  خشک مٹھائی  تقسیم کرنا  یا ان کو لٹانا  دونوں درست اور مباح ہیں، بہ شرطیکہ حاضرین کو تکلیف نہ ہو، اور اس کا درجہ استحباب کا ہے نہ کہ سنت کا۔


البتہ مسجد میں مجلس نکاح منعقد ہو تو مسجد کا احترام بہت ہی ضروری ہے اس لئے وہاں چھوہارے تقسیم کرنے سے احتراز کرنا چاہئیے کیونکہ تلویث مسجد کا امکان ہے، اور مسجد میں چھوہارا وغیرہ لٹانا محل نظر ہے کیونکہ مسجد میں ایسا کرنے کی صورت میں ایک دوسرے سے چھینا جھپٹی میں بالعموم مسجد کی بے حرمتی ہوتی ہے جیسا کہ اکثر دیکھنے کو ملتا ہے۔


قرآن کریم میں ہے۔

ما في  القرآن الکریم وأن المساجد للہ فلا تدعوا مع اللہ أحدا سورۃ الجن :۱۸)

ما في الجامع لأحکام القرآن للقرطبي أفردوا المساجد لذکر اللہ ولا تتخذوہا ہزواً ومتجراً و مجلساً و لا طرقاً ولا تجعلوا لغیرہا فیہا نصیباً ۔ ( الجامع لأحکام القرآن للقرطبي ۱۹/۲۲)


چھوہارے لٹانے کی اباحت کے سلسلہ میں المبسوط للسرخسي میں ہے:

وقال أبو حنيفة: لا بأس بنثر السكر والجوز اللوز في العرس والختان وأخذ ذلك إذا أذن لك أهله فيه، وإنما يكره من ذلك أن يأخذ بغير إذن أهله وبه نأخذ .

(المبسوط للسرخسي ٣٠/١٦٧  آخر کتاب  اختلاف  ابی حنیفۃ وابن ابی لیلیٰ، ط؛ دارالمعرفۃ)


اسی طرح فتاوی عالمگیری میں ہے:

لا بأس بنثر السكر والدراهم في الضيافة وعقد النكاح، كذا في السراجية.

(فتاوی عالمگیری ٥/٣٤٥ الباب الثالث عشر في النهبة ونثر الدراهم والسكر وما رمى به صاحبه، کتاب الکراہیۃ، ط؛ رشیدیہ)


مندرجہ بالا عبارات سے اس عمل کا مباح  ہونا معلوم  ہوتا ہے، جیساکہ لابأس لفظ اس پر دلالت کرتا ہے،  باقی جن روایات میں عقدِ نکاح کے موقع پر  چھوہارے لٹانے کا ذکر ہے وہ انتہائی ضعیف ہیں، ان روایات سے اس  عمل کے سنت ہونے پر استدلال  کرنا درست نہیں ہے، امام بیہقی فرماتے ہیں کہ  چھوہارے لٹانے سے متعلق جو روایات منقول ہیں وہ سب ضعیف ہیں ۔


چھوہارے لٹانے کے ثبوت کے سلسلہ میں جو روایات ملتی ہے، وہ سب ضعیف ہیں، چنانچہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حوالے سے تین رواتیں ذکر کی ہیں، دو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں اور ایک حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے۔


پہلی روایت اور اس کی تحقیق

یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں اس کے الفاظ اس طرح سے ہیں، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تزوج بعض نسائہ فنثر علیہ التمر (سنن بیہقي، رقم: ۱٤٦۸۲)

 اس روایت میں ایک راوی حسن بن عمرو بن سیف العبدی بصری ہیں، امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں فرمایا عندہ غرائب اور علی بن المدینی اور بخاری نے اس راوی کو کذاب کہا اور رازی نے متروک قرار دیا (لسان المیزان)


پوری حدیث ملاحظہ فرمائیں۔

أخبرنا أبو سعد الماليني، أنا أبو أحمد بن عدي، نا محمد بن عثمان وراق عبدان نا عمرو بن سعيد الزعفراني، نا الحسن بن عمرو، نا القاسم بن عطية، عن منصور بن صفية، عن أمه، عن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم " تزوج بعض نسائه فنثر عليه التمر " الحسن بن عمرو وهو ابن سيف العبدي بصري عنده غرائب۔ (السنن الكبرى للبيهقي، ٧/٢٨٧ باب ما جاء فی النثار فی الفرح، ط؛ نشر السنۃ ملتان)


دوسری روایت اور اس کی تحقیق

یہ روایت بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان الفاظ سے مروی ہے، کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم إذا زوج أو تزوّج نثر تمرًا (سنن بیہقي، رقم ۱٤٦۸٠) اس روایت میں ایک راوی عاصم بن سلیمان بصری ہیں، ان کے بارے میں امام بیہقی نے فرمایا کہ محدث عمرو بن علی نے انھیں ”متہم بالکذب“ قرار دیا۔ رماہ عمرو بن علی بالکذب ونسبہ إلی وضع الحدیث (لسان المیزان) علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کے بارے میں فرمایا: کذبہ غیر واحد (المغني في الضعفاء: ۱/۳۲۰، ط: بیروت)


پوری حدیث ملاحظہ فرمائیں۔

السنن الكبرى میں ہے۔

أخبرنا أبو عبد الرحمن محمد بن الحسين السلمي أنا عبد الله بن محمد بن موسى بن كعب، أنا محمد بن غالب، نا زكريا بن يحيى، نا عاصم بن سليمان، نا هشام بن عروة، عن أمه، عن عائشة رضي الله عنها قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم " إذا زوج أو تزوج نثر تمرا " عاصم بن سليمان بصري رماه عمرو بن علي بالكذب ونسبه إلى وضع الحديث۔ (٢٨٨  ٧/٢٨٧ باب ما جاء فی النثار فی الفرح، ط؛ نشر السنۃ ملتان)


لسان الميزان میں ہے:

عاصم بن سليمان أبو شعيب التميمي الكوزی البصري وكوز قبيلة روى عن هشام بن عروة وجماعة قال ابن عدي يعد ممن يضع الحديث وقال الفلاس كان يضع الحديث ما رأيت مثله قط۔ (٣/٢٨١ حرف العین المھملہ، ط؛ ادارۃ تالیفات اشرفیہ)


تیسری حدیث اور اس کی تحقیق

یہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس کے اخیر میں یہ الفاظ ہیں: انتہبوا، فقال: یا رسول اللہ! لم تنہنا عن النہبة، قال: إنما نہیتکم عن نہبة العساکر، أما العرسات فلا، قال فجاذبہم النبي صلی اللہ علیہ وسلم وجاذبوہ (سنن بیہقي، رقم: ۱٤٦۸٤) اس روایت کے بعد امام بیہقی رحمہ اللہ نے فرمایا: في إسنادہ مجاہیل وانقطاع وقد روی بإسناد آخر مجہول عن عروة عائشة رضي اللہ عنہا عن معاذ بن جبل ولا یثبت في ہذا الباب شيء واللہ أعلم (السنن الکبری للبیہقي، ۷/٤٦٩ رقم: ۱٤٦۸٤ باب ما جاء في النثار في الفرح، ط: بیروت)


پوری حدیث ملاحظہ فرمائیں۔

السنن الكبرى  میں ہے:

أخبرنا أبو القاسم إسماعيل بن إبراهيم بن علي بن عروة البندار ببغداد نا أبو سهل بن زياد القطان، نا أبو الفضل صالح بن محمد الرازي حدثني عصمة بن سليمان الجرار، نا لمازة بن المغيرة، عن ثور بن يزيد، عن خالد بن معدان، عن معاذ بن جبل رضي الله عنه قال: شهد النبي صلى الله عليه وسلم أملاك رجل من أصحابه فقال: على الألفة والطير المأمون والسعة في الرزق بارك الله لكم دففوا على رأسه قال: فجيء بالدف وجيء بأطباق عليه فاكهة وسكر فقال النبي صلى الله عليه وسلم:  انتهبوا  فقال: يا رسول الله أولم تنهنا عن النهبة؟ قال: إنما نهيتكم عن نهبة العساكر أما العرسات فلا  قال: فجاذبهم النبي صلى الله عليه وسلم وجاذبوه في إسناده مجاهيل وانقطاع وقد روي بإسناد آخر مجهول عن عروة عن عائشة رضي الله عنها عن معاذ بن جبل ولا يثبت في هذا الباب شيء۔ آخر میں حضرت نے فیصلہ کرتے ہوئے یہ بات تحریر فرمائی ہے، وقد روي في الرخصة فيه أحاديث كلها ضعيفة۔ (٧/٢٨٧  باب ما جاء فی النثار فی الفرح، ط؛ نشر السنۃ ملتان)


إعلاء السنن میں حضرت تھانوی تحریر بقلم ہے۔

قال التهانوي في إعلاء السنن قلت: وليس ذلك (إطعام النجاشي الحاضرين بعد نكاح أم حبيبة) بوليمة بل هو طعام التزويج، ويلتحق به ما تعارفه المسلمون من نثر التمر ونحوه في مجلس النكاح، فقد روى البيهقي عن معاذ بن جبل بسند فيه ضعف وانقطاع …….. وأغرب إمام الحرمين فصححه من حديث جابر، وهو لا يوجد ضعيفًا فضلا عن صحيح، وفي مصنف ابن أبي شيبة عن الحسن والشعبي أنهما كانا لا يريان بأسًا بالنهب في العرسات والولائم، وكرهه أبو مسعود وإبراهيم وعطاء وعكرمة. كذا في التلخيص الحبير۔ (إعلاء السنن ١١/١١ النكاح/ استحباب الوليمة، کراچی).


معلوم ہوا کہ چھوہارے لٹانے کی تینوں روایتوں میں شدید ضعف ہے، چنانچہ حضرت گنگوہی رحمہ اللہ نے حدیث کے بارے میں تحریر فرمایا: خرما لٹانے کی حدیث صحیح نہیں، اور اس میں اندیشہ تکلیف حاضرین کا ہے؛ لہٰذا نہ کرے۔ (باقیات، ص: ۲۰، رقم ٤٤٨) 


صورتِ مسؤلہ میں اگر کوئی شخص مسجد کا احترام  اور تقدس کا لحاظ کرتے ہوئے  نکاح کے موقع پر چھوہارے لٹاتا ہے تو چھوہارے بکھیرنا اور لُٹانا دونوں جائز ہے، لیکن اس کے بکھیرنے یا لٹانے والے اس بات کا خیال رکھیں کہ لوگوں کو اس سے تکلیف نہ ہو، اور حاضرین بھی مسجد کا احترام باقی رکھتے ہوئے اسے حاصل کریں، بلکہ بہتر یہ ہوگا کہ چھوہارے یا اور کوئی چیز اطمینان اور سکون کے ساتھ تقسیم کردی جائے۔ خواہ لڑکے والوں کی طرف سے ہو یا لڑکی والوں کی طرف سے دونوں درست ہے،

لیکن چھوہارے لٹانے کی روایات قابل استناد نہیں ہے، اس پر اعتماد کرتے ہوئے نکاح کے موقع پر چھوہارے لٹانے کو سنت نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اس لئے اس فعل کو سنت سمجھ کر انجام دینا درست نہیں،  اگر لوگ اس عمل کو سنت سمجھتے ہوں اور اس سے مسجد کا احترام وتقدس بھی پامال ہوتا ہو  تو پھر اس عمل سے اجتناب ضروری ہے، تاکہ ایک امر مباح کا اختلاط سنت سے نہ ہو اور ایک مباح کام  کی وجہ سے مسجد کی  بے ادبی کا گناہ نہ ہو۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: