اتوار، 13 فروری، 2022

نماز میں والنحر کی جگہ والنھر بڑھا تو نماز کا حکم

 سوال

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

محترم مفتی حضرات امید ہے آپ خیر عافیت سے ہوں گے ضرور، مفتی صاحب مجھے ایک مسئلہ بہت ضروری ہوا- سورہ کوثر کے بارے میں کہ نماز میں امام صاحب نے( انا)کو بلا مددہ پڑا اور (وانحر) کی جگہ( وانهر  پڑا ہے ،تو نماز میں فاسد ہوسکتا ہے یا نہیں مفتی صاحب؟

سائل: محمد قاسم اراکانی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


تلفظ کی تبدیلی یا الفاظ کی کمی بیشی کی وجہ سے معنیٰ تبدیل نہ ہو یا معنیٰ تو تبدیل ہو لیکن تغیر فاحش نہ ہو  تو  اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی،

اگر قرأت میں لفظ  اس طرح سے اس طرح سے بدل جائے کہ جس سے ایسے معنی پیدا ہوجائیں، جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے، تو نماز کے فاسد ہو جائے گی، اور اگر ایسا معنی پیدا نہ ہو جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے، تو نماز فاسد نہیں ہوتی۔


إمداد المفتین میں ہے۔

قال في شرح المنیة الکبیر القاعدة عند المتقدمین أن ما غیره تغیراً یکون اعتقاده کفراً تفسد في جمیع ذلک سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام، ثم قال بعد ذلک: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین۔ (إمداد المفتین، ص ۳۰۳)


اس طرح کے سوال کے جواب میں فتاویٰ رحیمیہ میں لکھا ہے: فتاویٰ قاضی خاں میں ہے ۔فصل لربک وانحر قرء وانھر تفسد صلاتہ۔(ص۷۱ج۱ فصل فی قرأۃ القرآن خطاء وفی الاحکام المتعلقۃ بالقرأۃ)اس لئے کہ معنی میں نمایاں تبدیلی ہوجاتی ہے ۔ لو قرأ فصل لربک وانھر مکان الحاء تفسد صلاتہ وذلک لبعد المعنی علی ماھو رأی المتقدمین (کبیری ص ۴۵۲ فصل فی بیان احکام زلۃ القاری) اس عبارت سے واضح ہوگیا کہ مقتدمین کے نزدیک نماز فاسد ہوگی اور لوٹانا ضروری ہوگا البتہ علماء متأخرین کے نزدیک بعض عموم بلوی نماز فاسد نہ ہوگی ۔فقط واﷲ اعلم بالصواب فتاویٰ رحیمیہ ٥/٨٥)


اسی طرح کتاب النوازل میں ہے۔

نماز کے دوران اگر قرآنِ کریم پڑھتے ہوئے ایسی فحش غلطی ہوجائے جس سے معنی بالکل بدل جائیں اور تاویل کی کوئی صورت نہ رہے، تو اس فحش غلطی سے نماز فاسد ہوجائے گی، اگر قریب المخارج حروف میں اَدل بدل ہوجائے، مثلا: ’’ظا‘‘ اور ’’ضاد‘‘ ’’طا‘‘ اور ’’تا‘‘، یا ’’ہا‘‘ اور ’’حا‘‘ وغیرہ، تو متأخرین کے نزدیک مطلقاً نماز فاسد نہ ہو گی، الا یہ کہ کوئی شخص قصداً غلط پڑھے، تو پھر یقینا فساد کا حکم لگایا جائے گا۔

قال في الخانیۃ والخلاصۃ: الأصل فیما إذا ذکر حرفاً مکان حرف وغیر المعنی، إن أمکن الفصل بینہما بلا مشقۃ تفسد، وإلاَّ یمکن إلا بمشقۃٍ، کالظاء مع الضاد المعجمتین، والصاد مع السین المہملتین، والطاء مع التاء۔ قال أکثرہم: لا تفسد۔ وفي خزانۃ الأکمل، قال القاضي أبو عاصم: إن تعمد ذٰلک تفسد۔ (شامي ۲؍۳۹۶ زکریا، طحطاوي ۱۸۶) کتاب النوازل ٣/٥٧٧)


صورتِ مسؤلہ میں انا کو بلا مدہ پڑھا اور وانحر کی جگہ وانهر  پڑھا ہے چونکہ اس طرح مخارج کے اغلاط میں ابتلاء عام ہے لہذا متاخرین کے قول کے مطابق عدم فساد صلاۃ کا حکم دیا جائے گا۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: