سوال
السلام عليكم و رحمة الله و بركاته
حضرت مفتی صاحب ایک آدمی نے غیر مسلم علاقہ میں زمین خریدی اور اسکا بیعانہ پانچ لاکھ روپیہ دیا اب غیر مسلم لوگ زمین پر مکان وغیرہ بنا نے نہیں دیتے تو جس آدمی نے بیعانہ دیا تھا اسکو واپس بیعانہ کی رقم کے ساتھ کچھ چار لاکھ مزید دیکر معاملا ختم کرنا چاہتے ہیں تو یہ مزید رقم لینا جائز ہے یا ناجائز ہے
سائل مولانا شعيب صاحب اسلامپوری
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
ایک بار بائع اور مشتری نے اپنی مرضی سے ایک قیمت متعین کر کے مبیع کا ایجاب و قبول کر لیا اور ثمن کا ایک حصہ بیعانہ کے طور پر ادا کر دیا تو یہ عقد صحیح ہو گیا اور زمین کی ملکیت مشتری کی ہوگئی۔
اب اگر کسی وجہ سے بیع کو فسخ کرنے کی نوبت آجائے اور بائع و مشتری اس بیع کو فسخ کرنے پر راضی ہو جائے تو مشتری کے لیے یہ جائز نہیں کہ جتنا بیعانہ دیا ہے اُس کا دگنا وصول کریں۔
صورت مسئولہ میں جانبین سے بیع فسخ کرنے پر صرف بیعانہ ہی وصول کرسکتے ہیں بیعانہ کی رقم کےعلاوہ کسی اور رقم کے مستحق نہیں ہیں، لہذا بیعانہ کی رقم سے زائد کا لینا شرعاً قمار ، جوا اور سود کے مشابہ ہے، جس کا لین دین مسلمانوں کے لئے قطعاً حرام ہے۔
مشکوہ شریف میں ہے۔
عن عمرو بن شعیب عن أبيه عن جده قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع العربان. رواه مالك وأبوداؤد وابن ماجه۔
وفي الهامش:
قوله: بيع العربان وهو أن يشتري السلعة ويعطي البائع درهماً أو أقلّ أو أكثر على أنه إن تمّ البيع حسب من الثمن وإلا لكان للبائع ولم يرجعه المشتري، وهو بيع باطل؛ لمافيه من الشرط والغرر۔ (مشکاۃ المصابیح، کتاب البیوع، باب المنهي عنها من البيوع، الفصل الثاني، ص٢٤٨ قدیم) (مستفاد فتاویٰ محمودیہ فتاویٰ بنوریہ فتاویٰ دار العلوم دیوبند کتاب النوازل)
صرف ایک صورت میں زائد رقم لے سکتے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ بائع نے بیعانہ کی رقم لے کر عملی طور پر مشتری کو اپنی زمین کا مالک بنادیا ہو تو مشتری کی ملکیت ثابت ہوجائے گی۔ جب اس زمین کی ملکیت ثابت ہوچکی اب اس بیع کو فسخ نہ کریں بلکہ اس کو جتنے میں خریدی ہے اس سے کچھ زیادہ رقم میں فروخت کردیں یہ بیع جدید ہوگی تو اب زائد رقم لینا درست ہوجائے گا۔
مثال کے طور پر مسؤلہ صورت میں بیس لاکھ کی زمین خریدی ہو اور بیعانہ پانچ لاکھ دئےہو اب وہ چار لاکھ بیعانہ کے ساتھ واپس کرکے بیع فسخ کرنا چاہتے ہیں تو آپ بیع کو فسخ نہ کریں اور نہ ہی بیعانہ واپس لیں بلکہ انہی کو یہ زمین چوبیس لاکھ روپئے میں فروخت کردیں اور مابقیہ لین دین مکمل کرلیں۔
بدائع الصنائع میں ہے۔
تفسیر التسلیم والقبض، فالتسلیم والقبض عندنا ہو التخلیة والتخلی، وہو أن یخلی البائع بین المبیع وبین المشتری برفع الحائل بینہما علی وجہ یتمکن المشتری من التصرف فیہ، فیجعل البائع مسلمًا للمبیع والمشتری قابضًا لہ (بدائع الصنائع، کتاب البیوع / تفسیر التسلیم والقبض ٤/٤۹۸زکریا)
ولا یشترط القبض بالبراجم؛ لأن معنی القبض ہو التمکین، والتخلی، وارتفاع الموانع عرفًا، وعادةً حقیقةً۔ (بدائع الصنائع ٤/۳٤۲زکریا)
شرح المجلہ میں ہے۔
للمشتری أن یبیع المبیع من آخر قبل قبضہ إن کان عقاراً لا یخشی ہلاکہ، وکما یجوز بیع العقار قبل قبضہ یجوز أیضاً التصرف فیہ بالرہن والہبة، (شرح المجلة ۱/۱۲۸رقم: ۲۵۳)
البحرالرائق میں ہے:
قوله صح بيع العقار قبل قبضه أي عند أبي حنيفة وأبي يوسف، وقال محمد: لايجوز لإطلاق الحديث، وهو النهي عن بيع ما لم يقبض، وقياسًا على المنقول وعلى الإجارة، ولهما أن ركن البيع صدر من أهله في محله ولا غرر فيه لأن الهلاك في العقارنادر بخلاف المنقول والغرر المنهي غرر انفساخ العقد، و الحديث معلول به عملًا بدلائل الجواز۔ (٦/١٩٣)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں