سوال
السلام عليكم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب ایک آدمی نے دوسرے آدمی سے اس شرط پر پچاس ہزار روپیہ لۓ کہ میں اسکو دوکان یا ہوٹل میں تجارت کے نام سے لگاؤنگا اور ایک سال پر نفع دونگا لیکن اس آدمی نے وہ پیسے خود خرچ کر لۓ اور اپنے پیسے جو ہوٹل میں دیا تھا اس میں سے وہ اگر نفع کے طور پر اس آدمی کو دیتا ہیں تو وہ جائز ہے یا نھیں؟
سائل مولانا شعيب اسلامپوری
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
مذکورہ صورت کو سمجھنے سے پہلے یہ بات بطور تمہید کے سمجھلیں کہ ثمن متعین کرنے سے متعین نہیں ہوتا ہے اس لئے کہ یہ ثمن نہیں دے سکے گا تو اپنی طرف سے کوئی دوسرا دے گا۔ یہی ثمن دینا کوئی ضروری نہیں ہے، اس ثمن کی تعیین تو صرف بائع یا مشتری کو بھروسہ دینے کے لئے ہوتی ہے۔
حدیث میں آتاہے کہ درہم کے بدلے دینار لیا کرتے تھے، جس سے معلوم ہوا کہ درہم اور دینار متعین کرنے سے متعین نہیں ہوتے۔
حدیث میں ہے۔
عن ابن عمر قال کنت أبیع الابل فی البقیع فأبیع بالدنانیر و آخذ الدراہم و أبیع بالدراہم و آخذبا لدنانیر فوقع فی نفسی من ذالک فأتیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ھو فی بیت حفصة او قال حین خرج من بیت حفصة فقلت یا رسول اللہ رویدک أسألک انی أبیع الابل بالبقیع فأبیع بالدنانیر و آخذ الدراہم و ابیع بالدراہم و آخذ الـدنـانـيـر ، فقال : لا بأس ان تأخذها بسعر يومها مالم تفرقا و بينكما شئ ۔ ( سنن بیہقی ، باب اقتضاء الذهب من الورق، ٤٦٦/٥، نمبر ۱۰۵۱۳ )
اسی طرح قول تابعی میں ہے کہ ثمن کے بدلے کوئی اور چیز بھی لے سکتا ہے، تابعی کے اثر میں ہے دینار متعین کئے ہو تو اس کے بدلے کوئی اور چیز لے سکتا ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ یمن متعین کرنے سے متعین نہیں ہوتا، اس لئے اس میں تصرف کر سکتا ہے۔
اثر میں ہے۔
عـن ابـن سـيـريـن قـال اذا بعت شيئا بدينار فحل الاجل فخذ بالدينار ما شئت من ذلك النوع و غيـره . ( مصنف عبدالرزاق ، باب السلعۃ یسلفھا فی دینار ھل یاخذ غیرالدینار ٨/١٢، نمبر ١٤۱۹۳)
اسی طرح ہدایہ میں یہ اصول بیان کیا ہے کہ ثمن کو متعین کرنے سے اس کی تعیین نہیں ہوتی۔
ہدایہ میں ہے۔
لیس فیہ غرر الانفساخ بالہلاک لعدم تعینہابالتعیین بخلاف المبیع۔ (ہدایہ رحمانیہ ٣/٨٠)
صورت مسئولہ میں جو صورت بیان کی ہے کہ پچاس ہزار روپیہ لینے کے بعد وہ پیسے خود خرچ کرلۓ اور اپنے پیسے جو ہوٹل میں دیے تھے اس میں سے وہ نفع کے طور پر اس آدمی کو دیتا ہیں، تو اس میں دو باتوں کا لحاظ ضروری ہے ایک تو یہ کہ اس میں منافع کی تعیین فی صد کے اعتبار سے ہو، اور دوسرے نمبر پر پچاس ہزار ہی کے حساب سے منافع سال بھر کے ہو پچاس ہزار سے کم سے منافع کا حساب نہ ہو تو جائز ہے اور اگر منافع فکس ہے یا پچاس ہزار کی رقم دی ہے اور پچیس ہزار کے حساب سے منافع کی تقسیم کرتاہے تو ایسی صورت میں سود اور غرر کی وجہ سے یہ معاملہ درست نہیں ہوگا۔
بدائع الصنائع میں ہے۔
ومنها أن يكون الربح جزءًا شائعًا في الجملة، لا معينًا، فإن عينا عشرةً، أو مائةً، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدةً؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لايحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلايتحقق الشركة (في الربح ٦/٥٩ کتاب الشرکة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة، ط: سعید)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں