سوال
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
اگر آدمی کی ایک رکعت چھوٹ جائے اور آخری قاعدہ میں صرف التحیات پڑھنے کے بجائے اس نے درود شریف پڑھ لیا تو سجدہ سہو واجب ہوگا یا نہیں اور سجدہ سہو نہ کیا تو نماز کا اعادہ کرنا ہوگا یا نہیں۔
سائل: مشتاق پٹھان
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
جس شخص کی امام کی اقتداء میں ایک یا کئی رکعتیں فوت ہوئی ہو وہ مسبوق کہلاتا ہے، اس کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ امام کی اقتدا میں قعدہ اخیرہ میں صرف تشہد پڑھے گا، درود شریف اور دعا نہیں پڑھے گا،
اس کے لیے یہ طریقہ ہے کہ امام کے قعدہ اخیرہ میں تشہد کو ترسل کے ساتھ یعنی آہستہ آہستہ اتنی رفتار سے پڑھیں کہ امام کے سلام پھیرنے تک وہ التحیات سے فارغ ہوجائیں، اور اگر پہلے فارغ ہوگئے تو خاموش رہیں۔
لیکن اگر اس نے بھولے سے درود شریف اور دعا بھی پڑھ لی، تو چونکہ وہ ابھی تک امام کی اقتداء میں ہے، لہذا اس پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا۔
شامی میں لکھاہے۔
ولو فرغ المؤتم قبل إمامه سكت اتفاقا، وأما المسبوق فيترسل ليفرغ عند سلام إمامه، وقيل يتم، وقيل يكرر كلمة الشهادة
قوله وقيل يكرر كلمة الشهادة كذا في شرح المنية. والذي في البحر والحلية والذخيرة يكرر التشهد تأمل۔ (شامی ٢/٢٢٠)
اسی طرح عالمگیری میں ہے۔
ومنهاأن المسبوق ببعض الركعات يتابع الإمام في التشهد الأخير وإذا أتم التشهد لا يشتغل بما بعده من الدعوات ثم ماذا يفعل تكلموا فيه وعن ابن شجاع أنه يكرر التشهد أي قوله: أشهد أن لا إله إلا الله وهو المختار. كذا في الغياثية والصحيح أن المسبوق يترسل في التشهد حتى يفرغ عند سلام الإمام. كذا في الوجيز للكردري وفتاوى قاضي خان وهكذا في الخلاصة وفتح القدير. (١/٩١ ط: دار الفکر)۔
اسی دوسری جگہ عالمگیری میں ہے۔
سهو المؤتم لا يوجب السجدة ولو ترك الإمام سجود السهو فلا سهو على المأموم، كذا في المحيط۔ (١/١٢٨ ط: دار الفکر)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں