سوال
کوئی نابالغ بچہ یا بچی خود کشی کرلے تو سزا ہوگی؟
سائل:عکرمہ بن عبدالرحمن
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
جس گناہ پر شریعت میں مخصوص سزا مقرر ہے یا لعنت آئی ہے یا جہنم کی وعید وارد ہوئی ہے وہ گناہ کبیرہ ہے اور جس گناہ پر مخصوص سزا، لعنت یا وعید نہیں آئی ہے صرف ممانعت وارد ہوئی ہے وہ صغیرہ ہے، بعض مرتبہ گناہ صغیرہ پر اصرار اور بے باکی کی وجہ سے وہ گناہ کبیرہ بن جاتا ہے۔
انسان کی زندگی یہ اللہ کی امانت ہے جس میں خیانت کرنے کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہوتا، اس وجہ سے خودکشی کرنا یعنی اپنے آپ کو خود ہی مارنا اللہ تعالیٰ کی امانت میں خیانت کرنے کی وجہ سے اسلام میں حرام ہے اور یہ ایک گناہ کبیرہ ہے، اور کبیرہ گناہ سے اجتناب یہ احکامات کی قبیل سے ہے، اور بچے احکامات کے مکلف نہیں ہے، اس سلسے میں مختلف احادیث مروی ہے۔
احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں۔
عن عائشة أم المؤمنين رُفِع القلمُ عن ثلاثٍ: عن الصبيِّ حتى يبلُغَ، وعن النائمِ حتى يستيقِظَ، وعن المجنونِ حتى يُفِيقَ.
( تخريج مشكل الآثار ٣٩٨٧ إسناده صحيح )
عن عائشة أم المؤمنين رُفِعَ القَلمُ عن ثلاثٍ: عنِ النائمِ حتى يَستيقِظَ، وعنِ الصبيِّ حتى يَحتَلِمَ، وعنِ المَجنونِ حتى يَعقِلَ، وقد قال حمّادٌ: وعنِ المَعتوهِ حتى يَعقِلَ.
تخريج المسند ٢٤٦٩٤ إسناده جيد
أخرجه أبو داود (٤٣٩٨)
بنحوه، والنسائي (٣٤٣٢)،
وابن ماجة (٢٠٤١)،
وأحمد (٢٤٦٩٤) واللفظ له
عن علي بن أبي طالب مرَّ عليُّ بنُ أبي طالبٍ بمجنونةِ بَني فلانٍ قد زنَت، أمرَ عمرُ برَجمِها، فرجَعها عليُّ، وقالَ لعمرَ: يا أمير المؤمنين تَرجُمُ هذِه؟ قال: نعَم. قال: أو ما تذكُرُ أنَّ رسولَ اللَّهِ ﷺ، قالَ: رُفِعَ القلمُ عن ثلاثٍ، عنِ المَجنونِ المغلوبِ على عقلِهِ، وعنِ النّائمِ حتّى يستَيقظَ، وعنِ الصَّبيِّ حتّى يحتَلِمَ، قالَ: صدَقتَ، فخلّى عَنها. (صحيح ابن خزيمة ١٠٠٣ إسناده صحيح وله شواهد شرح رواية أخرى یہ روایات الباحث الحدیثی سے ماخوذ ہے)
ان احادیث مبارکہ کی روشنی میں چونکہ بچے احکامات کے مکلف نہیں ہے اس لئے امید ہے کہ وہ مأخوذ نہیں ہوں گے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں