سوال
زید ایک قرضدار آدمی ہے جسکے پاس عمر پچاس ہزار مانگتا ہے، عمر نے زید سے کہا کے تو کہیں سے پچاس ہزار قرض ایک دن کے لئے لیکر میرا قرض ادا کردے، دوسرے دن میں تجھے میری زکوٰۃ کے پچاس ہزار دوںگا اس سے تو اپنا قرض ادا کردینا جس سے زید کا قرض اتر جائے گا اور عمر کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی، تو کیا ایسا کرنا صحیح ہے یا نہیں؟؟؟
دوسری کوئی شکل ہو تو بھی بتلائیں، مہربانی ہوگی۔
سائل:محبوب خان الحسنی مانگرول گجرات الہند
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
اگر کوئی شخص غریب اور ضروت مند ہے اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ اصلیہ سے زائد نصاب زکوٰۃ کی رقم یا سامان موجود نہیں ہے، یا رقم موجود تو ہے، لیکن اس پر اتنا قرض ہے کہ اگر وہ منہا کیا جائے تو اس کے پاس نصاب سے کم رقم بچے تو ایسے شخص کو زکاۃ دی جاسکتی ہے۔ نیز کسی مستحق مقروض کو قرض ادا کرنے کے لیے زکاۃ دینا مستحسن اور باعثِ ثواب بھی ہے۔
صورت مسئولہ میں بیان کی ہوئی صورت جائز ہے، جب کہ اس کے پاس اپنی ضرورتِ اصلیہ سے زائد کسی قسم کا اتنا مال نہ ہو کہ وہ اپنا قرض چکاسکے، دوسری ایک اور صورت ہے جو اس سے بھی آسان ہے اور وہ یہ ہے کہ عمر زید کو زکوۃ کے پیسے دیں اور جب زید مالک بن جائے تو پھر اس سے اسی وقت اپنادین وصول کرلیں۔
شامی میں ہے۔
مدیون لا یملک نصابا فاضلا عن دینه، وفي الظہیریة: والدفع للمدیون أولی منه للفقیر. (الدرالمختار مع الشامي ٣/٢٨٩ زکریا)
مجمع الانحر اور شامی میں ہے۔
وکرہ إعطاء فقیر نصابا أو أکثر إلا إذا کان المدفوع إليه مدیوناً، أو کان صاحب عیال بحیث لو فرقہ علیہم لایخص کلّا، أو لا یفضل بعد دینه نصاب فلا یکرہ. (الدر المختار مع الشامي/ باب المصرف٣/٣٠٤ زکریا، مجمع الأنہر الزکاۃ / فی بیان أحکام المصارف ١/٣٣٣ بیروت)
البحر الرائق میں ہے۔
قوله: والمدیون أطلقه کالقدوري، وقیدہ في الکافي بأن لا یملک نصابا فاضلاً عن دینه؛ لأنه المراد بالغارم في الآیة، وہو في اللغة: من عليه دین ولا یجد قضاء کما ذکرہ القُتَیبي … وفي الفتاوی الظہیریة: الدفع إلی من علیه الدین أولی من الدفع إلی الفقیر. (البحر الرائق/ باب المصرف ٢/٢٤٢ کراچی)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں