سوال
السلام علیکم ورحمتہ اللّٰہ وبرکاتہ۔
جی مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ ہمارے یہاں ایک آدمی اذان پڑھنے کا بہت شوق رکھتا ہے خاص طور سے فجر کی اذان کا اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ آدمی بھانگ پیتا ہے اس کو کہو کہ بھائی اس گناہ کو چھوڑ دے اور اس سے توبہ کر لے ہم لوگوں نے اس کو سمجھایا بھی ہے مگر لوگوں کا کہنا ہے کہ اب بھی یہ بھانگ پیتا ہے اسکو اذان پڑھنے سے منع کرو ہم لوگوں نے اس کو منع کیا ہے مگر وہ مانتا نہیں ہے پھر بھی اذان پڑھتا ہے تو کیا اس کا اذان پڑھنا ٹھیک ہے یا نہیں جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
سائل: محمد رضوان جمالپوری
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
اذان شعائر اسلام میں سے ایک اہم شعار ہے، اور اذان کے ذریعے آدمی دوسروں کو نماز کی دعوت دیتا ہے، اس لیے اذان کے لیے ایسا شخص مقرر ہونا چاہیے، جو صالح ہو، متقی ہو، سنت کا جاننے والا ہو فاسق اور مرتکب کبائر نہ ہو تاہم اگر فاسق فاجر اذان دیں تو تو مع الکراہت ہوجائے گی۔
صورت مسئولہ میں اگر یہ بات یقینی ہو کہ وہ بھانگ پی کر نشہ کرتا ہے تو یہ ناجائز اور کبیرہ گناہ ہے۔اور اس کا مرتکب فاسق اور گناہ گار ہے، اور نشہ کی حالت میں اس کا اذان اور اقامت کہنا مکروہِ تحریمی ہے، البتہ اذان دے دی ہو تو اس کو دوبارہ لوٹانا واجب نہیں ہے۔
البتہ نشہ کی حالت میں دی ہوئی اذان کا لوٹانا بہتر ہے، اور اذان دیتے وقت نشہ کی حالت میں نہ ہو تو بھی مکروہ ہے، لیکن اعادہ نہیں کیا جائے گا۔
لہذا ذمہ داران مسجد کی ذمہداری ہے کہ ایسے شخص سے اذان نہ دلائیں۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
وینبغي أن یكون المؤذن رجلاً عاقلاً صالحاً تقیاً عالماً بالسنة، کذافي النهایة۔ (الفتاوى الهندية، ١/٥٣ )
وفیہ ایضا: ویکره أذان الفاسق ولایعاد، هکذا في الذخیرة. (الفتاوى الهندية، ۵۴ / ۱ )
حلبی کبیر میں ہے:
ولو قدّموا فاسقاً يأثمون بناء علی أن كراهة تقديمه كراهة تحريم؛ لعدم اعتنائه بأمور دينه، و تساهله في الإتيان بلوازمه الخ ( كتاب الصلاة، الأولی بالإمامة، ص: ٥١٣، ٥١٤ ط: سهيل اكيدمي)
فتاوی ہندیہ میں ہے۔
ویکرہ اذان الفاسق ولا یعاد ھکذا فی الذخیرۃ۔ ( فتاویٰ ہندیہ ١/٥٤ )
شامی میں ہے۔
وینبغی ان لا یصح اذان الفاسق بالنسبۃ الی قبول خبرہ، والاعتماد علیہ، ای لانہ لا یقبل قولہ فی الامور الدینیۃ، فلم یوجد الاعلام کما ذکرہ الزیلعی وحاصلہ انہ یصح اذان الفاسق وان لم یحصل بہ الاعلام ای : الاعتماد علی قولہ فی دخول الوقت۔ ( رد المحتار ١/٦٢، مکتبۃ زکریا دیوبند ) واللہ اعلم بالصواب
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں