منگل، 22 فروری، 2022

ایڈوانس دیکر کرایہ کم دینے کا شرعی حکم سوال نمبر ١٧١

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ مفتی صاحب یہ معلوم کرنا ہے کہ مکان مالک کو پانچ لاکھ روپے اڈوانس دے کر پانچ سو روپے ماہانہ کرایا طے کرنا جائز ھے یا نھیں اور جواز کی متبادل شکلیں کیا ہے، جواب عنایت کرے مہربانی ہوگی۔

سائل: محمد وسیم بلگامی کرناٹک


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


کرایہ دار سے انڈوانس میں جو رقم لی جاتی ہے اس کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ کرایہ دار سے انڈوانس میں رقم وصول کرکے کرایہ کم کردینا اور وصول شدہ رقم کو انڈوانس کرایہ شمار کرکے مدت ختم ہونے کے بعد واپس نہ کرنا چونکہ یہ پیشگی کرایہ ہے اس لئے جب مدت ختم ہوجائے گی تو اس کو واپس نہیں کیاجائے گا۔


یہ صورت یک مشت پیشگی کرایہ لینے کی ایک شکل ہوجائے گی، لہٰذا اگر متعاقدین کے درمیان یہ طے ہوجائے کہ مالک کرایہ کی اتنی رقم پیشگی لے گا اور پھر ہر مہینہ کا کرایہ اتنا ہوگا تو اس کی گنجائش ہے لیکن یہ واضح رہنا چاہئے کہ جب اسے کرایہ کی رقم میں شامل مان لیا جائے گا تو بعد میں کسی وقت کرایہ دار اس رقم کی واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتا اس کا لحاظ رکھا جائے، یہ صورت فتاوی محمودیہ سے مستفاد ہے دیکھئے فتاوی محمودیہ ١٤/٥٨٣)


شرح المجلۃ میں ہے۔

تلزم الأجرۃ بشرط التعجیل یعني لو شرط أن تکون الأجرۃ معجلۃ لزم المستأجر تسلیمہا۔ (شرح المجلۃ ١/٢٤١ کوئٹہ)

ویعتبر ویراعي کل ما اشترط العاقدان في تعجیل الأجرۃ وتأجیلہا۔ (شرح المجلۃ / الفصل الثاني من کتاب الإجارۃ ١/٢٤٥ دار الکتب العلمیۃ بیروت)


الفتاویٰ الہندیۃ میں ہے۔

ثم الأجرۃ تستحق بأحد معان ثلاثۃ: إما بشرط التعجیل أو بالتعجیل من غیر شرط أو باستیفاء المعقود علیہ، فإذا وجد أحد ہٰذہ الأشیاء الثلاثۃ فإنہ یملکہا، وکما یجب الأجر باستیفاء المنافع، یجب بالثمن من استیفاء المنافع، إذا کانت الإجارۃ صحیحۃ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الإجارۃ / الباب الثاني ٤/٤١٣ زکریا)


دوسری صورت کرایہ دار سے سیکورٹی کے طور پر کچھ رقم ایڈوانس وصول کرنا یعنی آگے سے ایک متعینہ رقم وصول کرلی جائے اور جب مدت ختم ہونے پر اگر کرایہ کا کوئی حصہ باقی ہو تو اس کو وضع کرکے باقی رقم کرایہ دارکو واپس لوٹادی جائے، تو یہ بھی درست ہے، اور عرفاً مالک مکان یا دکان کو  اس رقم کے استعمال کی اجازت ہوتی ہے اس لئے یہ رقم شرعاً قرض کے حکم میں ہوگی، اور اس پر قرض والے احکام لاگو ہوں گے، اور دکان چھوڑتے وقت یہ رقم کرایہ دارکو واپس لوٹانا لازم ہے۔

البتہ اس رقم کے بدلے میں کرایہ کم کردینا درست نہیں ہے، اس لئے کہ ایڈوانس زیادہ لے کر مارکیٹ کے مطابق کرائے میں کمی کرنا سود ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے اور حرام ہے، مثال کے طور پر کسی دوکان یا عمارت کا کرایہ مارکیٹ کے اعتبار سے دو ہزار روپئے ہو اور آپ پانچ لاکھ ایڈوانس دیکر ہر ماہ کرایہ پانچ سو روپئے کرواتے ہیں، تو شرعاً یہ سود ہے، اس لیے کہ ایڈوانس رقم درحقیقت مالکِ مکان کے ذمہ قرض ہوتی ہے اور قرض کے عوض کسی قسم کا مشروط نفع اٹھانا سود ہونے کی وجہ سے حرام ہے، لہذا اس طرح کا معاملہ کرنا ناجائز ہے۔


صورت مسئولہ میں پیشگی ایک موٹی رقم دے کر متعارف کرائے سے کم کرائے پر مکان میں رہنے کا معاملہ کرنا شرعاً جائز نہیں ہے یہ درحقیقت قرض سے انتفاع کی شکلیں ہیں، جو حدیث  کل قرض جر منفعة فہو ربو کی قبیل سے ہوکر سود ہو جائے گا۔


اگر معاملہ ہوچکا ہے تو اس سے نکلنے کی ایک صورت یہ ہوسکتی کہ کرایہ مکمل طے کیا جائے اور تھوڑا تھوڑا دیتا رہے جب مدت ختم ہوجائے تو مالک مکان اپنی طرف سے بلا کسی شرط کے ما بقیہ  کرایہ معاف کردے تو یہ صورت جائز ہوگی البتہ اگر یہ صورت پہلے سے مشروط ہوگی یا معروف متعارف ہوگی تو پھر عدم جواز کا حکم ہوگا۔


النتف فی الفتاوی میں ہے۔

أنواع الربا، وأما الربا فھو علی ثلاثة أوجہ :أحدھا فی القروض، والثاني فی الدیون، والثالث فی الرھون۔الربا فی القروض فأما فی القروض فھو علی وجھین أحدھما أن یقرض عشرة دراھم بأحد عشر درھما أو باثني عشر ونحوھا۔ والآخر أن یجر إلی نفسہ منفعة بذلک القرض، أو تجر إلیہ وھو أن یبیعہ المستقرض شیئا بأرخص مما یباع أو یواجرہ أو یھبہ ۔۔۔۔ ولو لم یکن سبب ذلک ھذا القرض لما کان ذلک الفعل، فإن ذلک ربا ، وعلی ذلک قول إبراھیم النخعي: کل دین جر منفعة لا خیر فیہ (النتف فی الفتاوی ، ص ٤٨٤ ٤٨٥)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: