سوال
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
مجبوری میں میڈیکل بیما لے سکتے ہیں__ مجبوری یہ ہے کہ ہماری بہن کافی بیمار رہتی ہے ہر ایک دو مہینہ میں بڑی ہسپتال میں داخل کرنا پڑتا ہے اور ہر مرتبہ خرچہ 20 یا 30 ہزار رپیے ہو ہی جاتا ہے اور اس طرح کا خرچہ ہر مرتبہ مشکل ہو جاتا ہے تو کیا ہم میڈیکل بیما لے سکتے ہیں_
میڈیکل بیما کی صورت یہ ہے کہ ایک سال کے 10000 دس ہزار بھرنے کے اور وہ لوگ ہسپتال میں داخل ہونا پڑے تو 5 لاکھ تک رپیے دیتے ہیں__ تو شریعت ہمیں کیا حکم دیتی ہے۔
سائل: نورمحمد ویراول
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
جیسے جیسے زمانہ گزرتاہے ویسے ویسے زمانے کی جدت میں اضافہ ہوتاجارہا ہے، اور اسی کے ساتھ ساتھ ہر چیز کے اندر جدت اور تبدیلی آرہی ہے، زمانے کی جدت کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ سودی کاروبار اور جوئے کی شکلوں میں اچھی خاصی تبدیلی آگئی ہے، انہی شکلوں میں سے ایک میڈیکل انشورنس ہے جس میں سود قمار جہالت اور غرر کے معنی پائے جاتے ہیں اور سود وقمار بنص قطعی حرام ہیں۔
میڈیکل انشورنس میں سود اس اعتبار سے ہے کہ بیمار ہونے کی صورت میں جمع کی ہوئی رقم سے زائد رقم ملتی ہے اور زائد رقم سود ہے، اسی طرح اس میں جہالت اور غرر یعنی دھوکا بھی پایا جاتا ہے، اور جہالت اور غرر والے معاملہ کو شریعت نے فاسد قرار دیا ہے۔
قرآن کریم میں مختلف جگہوں پرسود کے سلسلہ میں سخت وعیدیں بیان فرمائی ہے۔ قرآن کریم میں سود کی حرمت کے سلسلہ میں مختلف آیات اس طرح سے وارد ہوئی ہے۔
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِنَ اللّٰہِ
وَأَحَلَّ اللَّہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا -
الَّذِیْنَ یَأْکُلُوْنَ الرِّبَا لَا یَقُومُوْنَ إِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطَانُ مِنَ الْمَسِّ-
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَأْکُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَۃً وَاتَّقُوا اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ-
اسی طرح کئی ایک احادیث شریفہ میں سود کی حرمت پر سخت وعیدیں آئی ہیں صحیح مسلم شریف اور سنن ابن ماجہ شریف میں ہے۔
عَنْ جَابِرٍ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آکِلَ الرِّبَا وَمُؤْکِلَہُ وَکَاتِبَہُ وَشَاہِدَیْہِ وَقَالَ ہُمْ سَوَاء۔ (صحیح مسلم شریف، کتاب المساقاۃ، باب لعن آکل الربا ومؤکلہ)
قمار کے سلسلہ میں قرآنِ کریم میں ہے۔
يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون المائدة: ٩٠)
قمار کے سلسہ میں شامی میں ہے۔
لان القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لان كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص،( ٩/٥٧٧ کتاب الحظر والاباحۃ، ط: زکریا)
مروجہ انشورنس کی تمام کمپنیوں کا معاملہ بھی بینک کے کاروبار کی طرح ایک سودی معاملہ ہے، دونوں میں صرف شکل وصورت کا فرق ہے، نیز اس میں سود اور قمار ہے جن کی حرمت قرآنِ کریم کی واضح اور قطعی نصوص سے ثابت ہے، کسی زمانے کی کوئی مصلحت اس حرام کو حلال نہیں کرسکتی۔
مسؤلہ صورت میں میڈیکل انشورنس کرانا جائز نہیں ہے، اس لیے آپ اس کے چکر میں نہ پڑیں فقر کا خوف دلانا یہ شیطان کا کام ہے اور اس موہوم خوف کی وجہ سے حرام کا ارتکاب کرنا اور بھی قبیح ہے، اگر آپ رقم بچانا ہی چاہتے ہیں تو کچھ اخراجات کو قابو میں کرتے ہوئے ہرماہ کچھ رقم بچاسکتے ہیں، یا مجبوری میں حکومت کی طرف سے جو اسکیمیں دی گئی ہے اس کا استعمال کرسکتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں