ہفتہ، 19 فروری، 2022

کیا جھوٹ کی کوئی جائز شکل بھی ہے؟ سوال نمبر ١٦٠

 سوال

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب۔ مسٔلہ یہ ہے کہ قربانی کرنے کے لئے جانور جھوٹ بول کر خریدنا کیسا ہے؟ یعنی اگر کوئی شخص غیر مسلم کے پاس قربانی کے جانور خریدنے گیا تو غیر مسلم نے پوچھا آپ کو کیا کرنا ہے اگر مسلمان سچ بولتا ہے  قربانی کا نام لیتا ہے تو دیتا نہیں ہے، اور اگر مسلمان جھوٹ بولتا ہے ( پالنے کے لئےکہتاہے ) تو دیتا ہے؟

سائل: عنایت اللہ ابن عبد اللہ پالنپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


جھوٹ اپنے بولنے والے کو راہِ حق سے ہٹا کر گناہوں کی طرف مائل کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کو جہنم میں پہنچا دیتا ہے۔ اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ ایسے شخص کو مقصود تک نہیں پہنچاتا جو اپنی حد سے گزرجانے والا ، بہت جھوٹ بولنے والا ہو۔


قرآن کریم میں ہے۔ إِنَّ الله لَا يَهْدِيْ مَنْ هُوَ مُسْرِف كَذَّاب۔


اسی طرح بخاری و مسلم میں سچ اور جھوٹ کی وضاحت کرتے ہوئے حدیث نقل کی ہے کہ سچ نیکی کی طرف راہ نمائی کرتا ہے، اور نیکی جنت کی راہ دکھاتی ہے ، اور یقینا آدمی سچ بولتا ہے، یہاں تک کہ وہ صدیق بن جاتا ہے۔ اور جھوٹ بلا شبہ بُرائی کی راہ دکھاتا ہے ا ور بُرائی جہنم کی طرف لے جاتی ہے اور یقینا آدمی جھوٹ بولتا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا جھوٹا لکھا جاتا ہے۔


امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے ، اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کی ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا


إِنَّ الصِّدْقَ یَھْدِيْ إِلَی الْبِرِّ ، وَإِنَّ الْبِرَّ یَھْدِيْ إِلَی الْجَنَّۃِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَصْدُقُ حَتَّی یَکُوْنَ صِدِّیْقًا۔ وَإِنَّ الْکِذْبَ یَھْدِيْ إِلَی الْفُجُوْرِ ، وَإِنَّ الْفُجُْوْرَ یَھْدِيْ إِلَی الْنَّارِ۔ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَکْذِبُ حَتَّی یُکْتَبَ عِنْدَ اللّٰہِ کَذَّابًا۔۔ (متفق علیہ: صحیح البخاري، کتاب الأدب، باب قول اللّٰه تعالیٰ {یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا معَ الصَّادِقِیْنَ۔}، وَما ینھی عن الکذب۔۔ وصحیح مسلم ، کتاب البر والصلۃ والآداب ، باب قبح الکذب وحسن الصدق وفضلہ)


لہذا جھوٹ سے بچنا اور سچ کو لازم پکڑنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے، لیکن شریعتِ مطہرہ نے ضرورت کے مواقع پر "توریہ" اور "تعریض"  کی گنجائش دی ہے جہاں سچ بول کر مقصود حاصل کرنا ممکن نہ ہو، اور زیادتی کا اندیشہ ہو تو ایسے مواقع پر صریح جھوٹ نہ بولا جائے ، بلکہ گول مول سی بات کی جائے، جیسے قربانی کے جانور کے لئے کہے کہ پالنے کے لئے لے جاتاہو یا کوئی اور ایسی بات کہے کہ جس میں صریح جھوٹ نہ ہو بلکہ اس معنی کا بھی احتمال ہو تو جائز ہے وہ گنہگار نہیں ہوگا۔


شامی میں ہے۔

الكذب مباح لإحياء حقه ودفع الظلم عن نفسه والمراد التعريض لأن عين الكذب حرام قال : وهو الحق قال تعالى قتل الخراصون الكل من المجتبى وفي الوهبانية قال وللصلح جاز الكذب أو دفع ظالم وأهل الترضي والقتال ليظفروا   (شامی  ٩/٦١٢)


مجمع الانھر میں ہے۔

وَالْكَذِبُ حَرَامٌ إلَّا فِي الْحَرْبِ لِلْخُدْعَةِ وَفِي الصُّلْحِ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَفِي إرْضَاءِ الْأَهْلِ وَفِي دَفْعِ الظَّالِمِ عَنْ الظُّلْم۔ (٥٥٢/٢، کتاب الکراھیة، ط: داراحیاء التراث العربی، بیروت)


مسؤلہ صورت میں اگر قربانی کے لئے کسی اور جگہ سے جانور ملنے کی امید نہ ہو تو اس طرح سے تعریض و توریہ سے کام لے کر ان سے جانور خرید سکتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: