بدھ، 9 فروری، 2022

جماعت کی وجہ سے فجر کی سنتیں چھوٹ جائے تو کیا حکم ہے

سوال

امام کے پیچھے فجر کی نماز میں جماعت سے نماز پڑھنے کے لئے سنت‌ چھوڑدی تو سنت کب پڑھے

 سائل: احمدسعید احمدآباد


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


وقت گزر جانے کے بعد فرض یا واجب کی ادائیگی کو قضاء کہتے ہیں اس معنی کے اعتبار سے کسی سنت کی قضا نہیں ہے، اسی وجہ سے عام نمازوں کی سنتوں میں قضاء کا حکم نہیں ہے۔


البتہ فجر کی سنتوں کا حکم الگ ہے، فجر کی جماعت شروع ہونے کے بعد آنے کی صورت میں اگر امید ہوکہ وہ سنتیں پڑھ کر امام کے ساتھ قعدہ اخیرہ میں شامل ہوجائے گا، تو پہلے فجر کی سنتیں ادا کرے پھر امام کے ساتھ قعدہ میں شامل ہوجائے، اگر سنتیں پڑھنے کی صورت میں جماعت مکمل طور پر نکلنے کا اندیشہ ہو تو سنتیں چھوڑ دے اور فرض نماز میں شامل ہوجائے، فجر کی سنت رہ جانے کی صورت میں سورج طلوع ہوجانے کے بعد سے زوال تک قضاء کرلیں، اس کے بعد  قضاء درست نہیں۔


در مختار مع الشامی میں ہے۔

ﻭﻓﻲ اﻟﻤﻀﻤﺮاﺕ: ﻟﻮ اﻗﺘﺪﻯ ﻓﻴﻪ ﻷﺳﺎء ﻭﺇﺫا ﺧﺎﻑ ﻓﻮﺕ ﺭﻛﻌﺘﻲ اﻟﻔﺠﺮ ﻻﺷﺘﻐﺎﻟﻪ ﺑﺴﻨﺘﻬﺎ ﺗﺮﻛﻬﺎ ﻟﻜﻮﻥ اﻟﺠﻤﺎﻋﺔ ﺃﻛﻤﻞ ﻭﺇﻻ ﺑﺄﻥ ﺭﺟﺎ ﺇﺩﺭاﻙ ﺭﻛﻌﺔ ﻓﻲ ﻇﺎﻫﺮ اﻟﻤﺬﻫﺐ. ﻭﻗﻴﻞ اﻟﺘﺸﻬﺪ ﻭاﻋﺘﻤﺪﻩ اﻟﻤﺼﻨﻒ ﻭاﻟﺸﺮﻧﺒﻼﻟﻲ ﺗﺒﻌﺎ ﻟﻠﺒﺤﺮ، ﻟﻜﻦ ﺿﻌﻔﻪ ﻓﻲ اﻟﻨﻬﺮ ﻻﻳﺘﺮﻛﻬﺎ ﺑﻞ ﻳﺼﻠﻴﻬﺎ ﻋﻨﺪ ﺑﺎﺏ اﻟﻤﺴﺠﺪ ﺇﻥ ﻭﺟﺪ ﻣﻜﺎﻧﺎ ﻭﺇﻻ ﺗﺮﻛﻬﺎ ﻷﻥ ﺗﺮﻙ اﻟﻤﻜﺮﻭﻩ ﻣﻘﺪﻡ ﻋﻠﻰ ﻓﻌﻞ اﻟﺴﻨﺔ۔ (در مختار ٢/٥١٠ ط: زکریا)

وأيضاً

ولا يقضيها إلا بطريق التبعية لقضاء فرضها قبل الزوال لا بعده في الأصح لورود الخبر بقضائها في الوقت المهمل، 

تحتہ فی الشامیہ قوله: ولا يقضيها إلا بطريق التبعية إلخ أي لا يقضي سنة الفجر إلا إذا فاتت مع الفجر فيقضيها تبعاً لقضائه لو قبل الزوال؛ وما إذا فاتت وحدها فلا تقضى قبل طلوع الشمس بالإجماع؛ لكراهة النفل بعد الصبح. وأما بعد طلوع الشمس فكذلك عندهما. وقال محمد: أحب إلي أن يقضيها إلى الزوال كما في الدرر. قيل: هذا قريب من الاتفاق۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين۔ ٢/٥١٢ ط: زکریا)


صورت مسئولہ میں فجر کی سنتوں کی تاکید کی وجہ سے یہ حکم ہے کہ جس دن فجر کی سنتیں تنہا یا فجر کی فرض نماز کے ساتھ رہ جائیں تو اشراق کا وقت ہوجانے کے بعد سے لے کر اسی دن زوال کے وقت تک فجر کی سنتیں ادا کی جاسکتی ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: