سوال
مدارس میں زکوۃ دینے کا حکم
1) ہمارے یہاں بعض مدارس میں طلبہ کو زکوۃ کا مالک نہیں بنایا جاتا بلکہ مطبخ میں کھانے کی شکل میں کھانا دے دیا جاتا ہے یعنی اسے مباح کردیا جاتا ہے چاہے تو طلباء کھانا کھائیں یا نہ کھائیں .... بعض طلبا کھانا نہیں کھاتے ہیں اور انھیں اس کھانے کا باقاعدہ مالک نہیں بنایا جاتا ہے کیا اس طرح سے زکوۃ ادا ہوگی یا نہیں؟
2) اسی طرح زکوۃ اور نفلی صدقات اور عطیات کے پیسے بینک میں خلط ملط کرکے جمع کر دئیے جاتے ہیں اور پھر جب اساتذہ کو تنخواہ دینا ہوتا ہے تو وہی پیسہ بینک سے نکال لیا جاتا ہے اور اس میں فرق نہیں کیا جاتا کہ کون سا پیسہ زکوۃ کا ہے یا عطیات کا ہے تو اس طرح سے کیا تنخواہ دینے سے زکوۃ ادا ہوگی یا نہیں؟
3) ایسے مدرسہ میں جہاں پر زکوۃ کو نفلی صدقات سے خلط ملط کر دیا جاتا ہے طلبہ کو مالک نہیں بنایا جاتا اور اساتذہ کو زکوۃ اور نفلی صدقات کے خلط ملط روپیے سے تنخواہ دی جاتی ہے ایسے مدرسہ میں پڑھانا اور درس و تدریس کی خدمات انجام دینے کا کیا حکم ہے ؟
4) اور یہ جاننے کے باوجود کہ زکات و صدقات کو خلط ملط کر دیا جاتا ہے اس کی تملیک نہیں پائی جاتی اگر کوئی عالم یا مفتی ایسے مدرسے میں درس و تدریس کی خدمات انجام دے تو اس کا کیا حکم ہوگا؟
5) ایسی مشکوک تنخواہ جس کا ہمیں علم نہیں ہے کہ وہ زکات و صدقات کے مخلوط پیسے دی جا رہی ہے اس کا استعمال کرنا جائز ہوگا یا ناجائز؟
6) اسی طرح جو بعض مدارس میں حیلہ تملیک کیا جاتا ہے اس کا شرعاً کیا حکم ہے کیا اس سے تملیک پائی جاتی ہے یا نہیں ؟
کیونکہ بعض طلباء کو کچھ رقم مثلا دس ہزار روپیہ دیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ اسے مدرسے میں ہبہ کر دو ..... لیکن طلبہ کو اگر مکمل اختیار دے دیا جائے تو وہ رقم بعض طلبہ ہبہ بھی نہیں کریں گے لیکن وہ مجبوری میں ہبہ کر دیتے ہیں تو کیا اس طرح کرنا جائز ہے یا نہیں؟
حیلہ تملیک میں طلبہ کی عموماً رضامندی شامل نہیں ہوتی تملیک کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جسے مالک بنایا جارہا ہے اسے مکمل اختیار دے دیا جائے کہ وہ اس مال میں جو تصرف کرنا چاہے کرے نہ یہ کہ اسے اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ مدرسے میں اسے ہبہ کر دے
ان تمام سوالات کا تفصیلی اور مدلل جواب مطلوب ہے....!
امید کے آپ حقیقت پر مبنی اور قواعد شرح کے مطابق منصفانہ جواب عنایت فرمائیں گے ....!
سائل قاسم مالیگاؤں
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
اس پورے استفتاء میں مجموعی اعتبار سے چار چیزوں کے بارے میں سوالات کئے گئے ہیں۔
(١) مطبخ میں بچوں کو کھانا کھلانے کے متعلق۔
(٢) بینکوں میں زکوۃ و صدقات و للہ رقوم کے جمع ہونے کی صورت میں مشکوک مال سے تنخواہ ادا کرنا، ور اس کے لینے کا شرعی جواز۔
(٤) حیلۂ تملیک کی شرعی حیثیت
مذکورہ سوالات کی تفہیم کے لئے بطور تمہید کے تین باتیں ملاحظہ فرمائیں ایک زکوۃ میں تملیک اور دوسرے نمبر پر باعتبار تعیین کے اثمان کی حیثیت کیا ہے، تیسرے نمبر پر مطبخ کے کھانے کی حیثیت تاکہ بات کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
تملیک زکوۃ
زکوۃ اور دیگر صدقاتِ واجبہ کے مصارف فقراء ومساکین وغیرہ ہیں جن پر تملیکاً خرچ کرنا ضروری ہے، نیز حسبِ تصریح فقہائے حنفیہ اموالِ زکوٰۃ میں تملیک شرط ہے یعنی اس مال کو کسی اہل مصرفِ زکوٰۃ کی ملکیت میں بحیثیتِ تملیک کہ دینا ضروری ہے۔
تملیک: دلائل کی روشنی میں
صاحب بدائع نے بدائع الصنائع میں تحریر فرمایاہے کہ، اللہ تعالیٰ نے آتوا الزکوٰۃ کا حکم فرمایا، اور ایتاء میں تملیک کے معنیٰ پائے جاتے ہیں، اور اسی وجہ سے اللہ نے زکوٰۃ کو صدقہ سے تعبیر کیا ہے اور تصدق میں تملیک ہے۔
وقد أمراللہ تعالی الملاک بإیتاء الزکوٰۃ لقولہ عزوجل وآتواالزکوٰۃ والایتاء ھو التملیک ولذاسمیٰ اللہ تعالیٰ الزکوٰۃ صدقۃ بقولہ عزوجل إنما الصدقات للفقرآء والتصدق تملیک (بدائع ۲/ ۴۵۶)
اور ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جہاں لام کی إضافت ملاک کی طرف ہو تو وہ ملکیت کے لئے خاص ہوجاتا ہے۔
أما النص فقولہ تعالیٰ إنما الصدقات للفقرآء وقولہ عزوجل فی أموالھم حق معلوم للسائل والمحروم والإضافہ بحرف اللام تقتضی الإختصاص بجھۃ الملک إذا کان المضاف إلیہ من أھل الملک۔ دوسری جگہ إرشاد ہے کہ زکوٰۃ فقیر کو مالک بنانے سے ہی ادا ہوگی۔ فإن الزکاۃ تملیک المال من الفقیر۔ (۲/۲۸۰ بدائع)
صاحب ہدایہ نے ہدایہ میں زکوٰۃ کے مال کومسجد اور کفن دفن میں خرچ کرنے کے عدمِ جواز کے پورے مسئلے کو بیان کرنے کے بعد اس کی وجہ تحریر فرماتے ہیں کہ لإنعدام الملک وھوالرکن۔ (ہدایہ جلد۱/ ۲۲۲)
صاحب فتح القدیر نے بھی صدقہ کی حقیقت کو تملیک سے تعبیر کیاہے۔ لإنعدام التملیک وھوالرکن: فإن اللہ تعالیٰ سماھا صدقۃ،وحقیقۃ الصدقۃ تملیک المال من الفقیر (فتح القدیر۲/۲۷۲)
صاحب بنایہ نے بھی زکوٰۃ میں تملیک کو جزو لاینفک کا درجہ دیاہے۔ لأن الرکن فی الزکوٰۃ التملیک من الفقیر۔ (البنایہ ۳/ ۴۶۲)
صاحب بحر نے بھی البحر الرائق میں زکوٰۃ کے مال کو مسجد اور کفن دفن میں خرچ کرنے کے عدمِ جواز کے پورے مسئلے کو بیان کرنے کے بعد اس کی وجہ تحریر فرماتے ہوئے لکھا ہے ہیں کہ۔ وعدم الجواز لإنعدام التملیک الذی ھو الرکن۔ (البحرالرئق۲/۲۷۲)
شامی میں رفاہی افعال میں خرچ کے عدم جواز کی وضاحت کرتے ہوئے اس کی وجہ عدم تملیک کو قرار دیتے ہوے رقم طراز ہیں۔ ویشترط أن یکون الصرف (تملیکاً) … وکل مالا تملیک فیہ۔ (شامی ۳/ ۲۹١)
الخلاصۃ الفقہیہ میں بھی تملیک کو اصل کا درجہ دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ، زکوٰۃ بلا تملیک مال درست نہیں ہے، پھر ایک قاعدہ بیان کیا ہے کہ ہر ایسی عبادت جو تملیک سے خالی ہو وہاں زکوۃ دینادرست نہیں ہے۔ والأصل فیہ أن الواجب فیہ فعل الإیتاء فی جزء من المال، ولا یحصل الإیتاء إلا بالتملیک، فکل قربۃ خلت عن التملیک لایجزیٔ عن الزکوٰۃ۔ (الخلاصۃ الفقہیہ ۱ ص۴۵۳)
فقہائے کرام کی ان عبارات سے اتنی وضاحت ضرور ہوجاتی ہے کہ زکوٰۃ میں تملیک یہ شرط کے درجہ میں ہے اس میں بلاضرورتِ شدیدہ کہ کسی بھی طرح کے حیلہ حوالے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
باعتبار تعیین کے اثمان کی حیثیت
اثمان ایک ایسی چیز ہے کہ جس کی تعیین نہیں ہوتی چاہے وہ حقیقی ہو(سونا چاندی) یا وہ عرفی (موجودہ کرنسی) ہو، یعنی وہ متعین کرنے سے متعین نہیں ہوتا ہے اسی وجہ سے فقہاء نے لکھاہے کہ مشتری نے جو ثمن دکھایا ہے اگر وہ اسے نہیں دے سکا تو اپنی طرف سے کوئی دوسرا دے سکتا ہے۔ یہی ثمن دینا کوئی ضروری نہیں ہے۔
حدیث میں آتاہے کہ درہم کے بدلے دینار لیا کرتے تھے، جس سے معلوم ہوا کہ درہم اور دینار متعین کرنے سے متعین نہیں ہوتے۔
حدیث میں ہے۔
عن ابن عمر قال کنت أبیع الابل فی البقیع فأبیع بالدنانیر و آخذ الدراہم و أبیع بالدراہم و آخذبا لدنانیر فوقع فی نفسی من ذالک فأتیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ھو فی بیت حفصة او قال حین خرج من بیت حفصة فقلت یا رسول اللہ رویدک أسألک انی أبیع الابل بالبقیع فأبیع بالدنانیر و آخذ الدراہم و ابیع بالدراہم و آخذ الـدنـانـيـر ، فقال : لا بأس ان تأخذها بسعر يومها مالم تفرقا و بينكما شئ ۔ ( سنن بیہقی ، باب اقتضاء الذهب من الورق، ٤٦٦/٥، نمبر ۱۰۵۱۳ )
اسی طرح قول تابعی میں ہے کہ ثمن کے بدلے کوئی اور چیز بھی لے سکتا ہے، تابعی کے اثر میں ہے دینار متعین کئے ہو تو اس کے بدلے کوئی اور چیز لے سکتا ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ثمن متعین کرنے سے متعین نہیں ہوتا، اس لئے اس میں تصرف کر سکتا ہے۔
اثر میں ہے۔
عـن ابـن سـيـريـن قـال اذا بعت شيئا بدينار فحل الاجل فخذ بالدينار ما شئت من ذلك النوع و غيـره . ( مصنف عبدالرزاق ، باب السلعۃ یسلفھا فی دینار ھل یاخذ غیرالدینار ٨/١٢، نمبر ١٤۱۹۳)
اسی طرح ہدایہ میں یہ اصول بیان کیا ہے کہ ثمن کو متعین کرنے سے اس کی تعیین نہیں ہوتی۔
ہدایہ میں ہے۔
لیس فیہ غرر الانفساخ بالہلاک لعدم تعینہا بالتعیین بخلاف المبیع۔ (ہدایہ رحمانیہ ٣/٨٠)
مطبخ کے کھانے کی حیثیت
اس کی دوصورتیں ہیں ایک یہ کہ کھانا تملیک شرعی کے بعد مطبخ میں پکایا گیاہو، دوسرے نمبر پر کھانا تملیک شرعی کے بغیر صرف زکوۃ و صدقات واجبہ سے بنایاگیا ہو۔
(١) زکوٰۃ کی رقم تملیک شرعی کے بعد مطبخ میں استعمال کی جاتی ہو تو مستحق طلباء اور غیر مستحق طلبہ کے لئے کھانے کا حکم یکساں ہوگا وہ کھانا اب سبھی طلبہ کھا سکتے ہیں کیوں کہ جب تملیک شرعی کے بعد مزکی کی زکوۃ ادا ہوچکی ہے اب وہ کھانا زکوۃ کے پیسوں کا نہیں رہا۔
اور جب مستحق زکاۃ آدمی زکاۃ و خیرات وصول کرنے کے بعد مالک بن جاتاہے اس کے بعد اپنی طرف سے کسی غیر مستحق کو ہدیہ کرنا یا کسی کو اس سے کھانا بناکر کھلاناچاہیں تو امیر ہو یا غریب کھلا سکتا ہے۔
اللہ کے رسول کے سامنے صدقہ کا گوشت لایا گیا جو حضرت بریرہ کو ملا تھا اور ان کے سامنے یہ بات کہی گئی کہ یہ صدقے کا گوشت ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اس کے لیے صدقہ ہے اور اس کی طرف سے ہمارے لیے ہدیہ ہے۔
مسلم شریف میں ہے۔
عن عائشة بنت أبي بكر-رضي الله عنهما- قالت: كانت في بريرة ثلاث سنن: خُيِّرَتْ على زوجها حين عتقت. وأُهْدِيَ لها لحم، فدخل علي رسول الله -صلى الله عليه وسلم- والبُرْمَةُ على النار، فدعا بطعام، فَأُتِيَ بخبز وأُدْمٌ من أدم البيت، فقال: ألم أَرَ البرمة على النار فيها لحم؟ قالوا: بلى، يا رسول الله، ذلك لحم تُصدِّق به على بريرة، فكرهنا أن نطعمك منه، فقال: هو عليها صدقة، وهو منها لنا هدية. وقال النبي -صلى الله عليه وسلم- فيها: إنما الوَلاء لمن أعتق۔ (صحيح مسلم حدیث نمبر: 3786)
(٢) مطبخ کے لئے جو اناج وغیره براہِ راست زکوٰۃ کی رقم سے خریدا گیا ہو، یا کھانے پینے کی اشیاء مد زکوٰۃ میں آئی ہوں، تو اس صورت میں صرف مستحق زکوٰۃ ہی مذکورہ مطبخ سے کھانا لے جاکر کھا سکتے ہیں، غیر مستحق طلباء کو مطبخ سے کھانا کھلانا شرعاً جائز نہیں، اور کھانا پکاکر غریب مستحق زکاة طلبہ کو دے دیا جائے کہ وہ کمرے میں جاکر کھالیں اس لئے کہ طلبہ کو تیار شدہ کھانا دے کر اس کو کلی تصرف کا مالک بنانا ہی تملیک ہے۔
تو ادائیگی زکاة کے لیے اتنی بات کافی ہے الگ سے کسی تملیک کی ضرورت نہیں ہے، واضح رہے کہ زکاة کا مقصد غریبوں پر تملیکاً خرچ کرنا ہے مطلقاً خرچ کرنا نہیں ہے۔ ویشترط أن یکون الصرف تملیکاً لا إباحةً الخ (درمختار مع رد المحتار: ٣/٢٩١ مطبوعہ: مکتبہ زکریا، دیوبند)۔
اورمدارس میں مروجہ جو صورت ہے کہ دسترخوان پر بٹھا کر روٹی کھلانے کی صورت میں روٹی ان کے سامنے رکھ دی جاتی ہے، تاکہ وہ حسبِ طلب کھالیں، باقی بچی ہوئی روٹی انھیں اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی ہے، جسے عربی میں اباحت کہتے ہیں، اگر یہ تملیک شرعی کے بغیر ہو تو تملیک نہ پائے جانے کی وجہ سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی ہے، نیز اس صورت میں مستحق افراد کی تعیین کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔
مسؤلہ صورتوں میں سے ہر ایک کا شرعی حکم
(١) اگر طلبہ کو زکوۃ کا مالک نہیں بنایا جاتا بلکہ مطبخ میں کھانے کی شکل میں کھانا دے دیا جاتا ہے اور اسے مباح کردیا جاتا ہے تو اس سے مزکی کی زکوۃ ادا نہیں ہوتی، البتہ تملیک شرعی کے بعد مطبخ میں کھانا پکایا جاتاہو تو اب دوبارہ تملیک کی ضرورت نہیں ہے اس طرح سے کھلانا درست ہوگا اور مزکی کی زکوۃ تملیک شرعی سے ہی ادا ہوجائے گی، چاہے طلباء کھانا کھائیں یا نہ کھائیں۔
(٢۔٣۔٤۔٥) زکوۃ اور نفلی صدقات اور عطیات کے پیسے بینک میں خلط ملط کرکے جمع کر دئیے جاتے ہیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اس لئے کہ موجودہ کرنسی اثمان کی قبیل سے ہیں اور ثمن متعین کرنے سے متعین نہیں ہوتا زکوۃ کی رقوم زمہداران دوسرے پیسوں سے بھی بنیت زکوۃ غریب طلبہ پر خرچ کرسکتے ہیں، اور بینک میں جمع شدہ رقم سے نکالی ہوئی رقوم اساتذہ کو تنخواہ کے طور پر لینا اور انتظامیہ کا بطور تنخواہ دینا درست ہے، اس میں فرق کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اگر یہ اشکال بینک سے نکالی ہوئی رقوم پر ہوسکتا ہے تو پھر خود بینک میں رکھی ہوئی رقوم پر بھی ہوگا اس لئے کہ وہ لوگ بھی زکوۃ و صدقات کی جو رقوم جمع کی ہوئی ہے وہی کی وہی واپس نہیں کرتے بلکہ اس کو اپنے اخراجات میں استعمال کرلیتے ہیں اور جب جمع کرنے والا وصولیابی کے لئے پہنچتا ہے تو اس کو اپنے پاس سے وہ رقم چکائی جاتی ہے لیکن چونکہ یہ معاملہ ثمن کا ہے اس لئے یہ اعتراضات و اشکالات کی ضر رت نہیں ہے۔
لہذا ایسے مدارس میں خدمت دینا بھی جائز ہے اور مدارس کے اساتذہ کا اس تنخواہ کو لینا اور لیکر اس کا استعمال کرنا بھی جائز ہے۔
٦۔ حیلۂ تملیک کیا ہے
کسی مستحق زکوٰۃ شخص کو بلا کسی عوض کے زکوٰۃ کی رقم کا مالک بنادینا تملیک کہلاتا ہے، اصطلاح میں تملیک کہا جاتا ہے کسی مستحق زکوٰۃ شخص کو مالک بناکر اس کے واسطے سے کسی ایسے دینی یا رفاہی کام میں خرچ کرنا جہاں زکوٰۃ کی رقم کا شرعا استعمال کرنا درست نہ ہو، اس معنیٰ میں تملیک بلا ضرورتِ شدیدہ مخصوص شرائط کے بغیر درست نہیں ہے۔
اس کی مختلف صورتیں فقہاء نے رقم بند کی ہے
(۱) کسی مستحق زکوٰۃ کو پہلے مدرسہ کی ضروریات بتلادی جائیں، جس کو مدرسہ سے ہمدردی ہو اوراجرو ثواب کے حصول کا مخلصانہ جذبہ بھی ہو، اور وہ اپنی ملکیت کی چیز کو مدرسہ کی ضروریات میں خرچ کرنے پر راضی ہو، اس کو زکوٰۃ کی رقم دی جائے کہ وہ اپنی مرضی سے مدرسہ کو دیدیں اور مفت میں صدقہ کا ثواب حاصل کریں ۔
والحیلۃ لمن أراد ذالک أن یتصدق ینوی الزکوٰۃ علی فقیر،ثم یأمرہ بعد ذالک بالصرف إلی ھذہ الوجوہ،فیکون لصاحب المال ثواب الصدقۃ ولذلک الفقیر ثواب ھذاالصرف۔ التاتارخانیہ جدید ۳/۲۰۸
(۲) مدرسہ کا جتنا ماہانہ خرچ ہو اس کا مکمل خرچ سارے طلبہ پر تقسیم کردیا جائے اور جو مستحق زکوٰۃ طلبہ ہو ان کو مد زکوٰۃ دیکر ان کی فیس جمع کرلی جائے، یہ طریق بہت احسن ہے۔ (مستفاد:،فتاوی محمودیہ جدید،۹/۶۰۳)
(۳) کسی مستحق زکوٰۃ طالب علم کو کہا جائے کہ وہ کسی سے یا مدرسہ سے قرض لیکر پھر وہ مدرسے کے کسی مصرف میں خرچ کردے، اس کے بعد مدرسہ والے مد زکوٰۃ کو طالب علم کے حوالے کردے تاکہ وہ اپنا قرض أدا کردے، یہ صورت مدارس والوں کو ایک حد تک معین ومدد گار ہو سکتی ہے۔ اس لئے کہ مد زکوٰۃ غریب طلبہ کی ضروریات کے مقابلہ میں زیادہ ہوتی ہے تو ایسی صورت میں یہ قرض والی صورت بہت بے غبار رہے گی۔ کمافی الھندیہ:والدفع إلی من علیہ الدین اولی من للدفع إلی الفقیر کذا فی المضمرات۔ (فتاویٰ ھندیہ،۱۸۸/۱)
(۴) مہتممِ مدرسہ یا ذمہ داران حضرات غریب بچوں کے خرچ کے وکیل بن جائے اور داخلہ فارم میں ایک کالم توکیل کے لئے بھی چھوڑدیا جائے اور بچے سے اس پر دستخط لی جائے کہ میں مدرسہ کے جملہ خرچ کے سلسلہ میں مدرسہ کے مہتمم اور ذمہ داران حضرات کو اپنی زکوۃ وصول کر کے خرچ کرنے کا وکیل بنا تا ہوں۔
فتاوی دارالعلوم میں توکیل نامہ کا مضمون اس طرح سے لکھا ہے۔ "میں حضرت مہتمم صاحب یا ان کے قائم مقام کو اپنی طرف سے زکوٰۃ وصول کرنے کا وکیل بناتا ہوں، اور اپنی ضروریات میں خرچ کرنے کا وکیل بناتا ہوں" یہ مہتمم و منتظمین حضرات کو غریب طلبہ کی مکمل کفالت کرنے میں حیلۂ تملیک کے عدم ضرورت تک معین ومددگار بن سکتی ہے۔ (مستفاد فتاوی دارالعلوم دیو بند ج۱۴/۱۲۷)
(۵) مدرسے کے کسی غریب طالب علم کو مد زکوٰۃ کا مالک بنایا جائے، پھر اس کو کہا جاوے کہ وہ مدرسہ کواپنی خوشی سے ہدیہ کردے، تاکہ وہ مدارس کے عام مصارف میں کام آسکے۔ (مستفاد فتاوی قاسمیہ ج۱۰/۹۵)
اس صورت کے سلسلہ میں بحث کرتے ہوئے فتاوی دارالعلوم دیوبند ٤/١٢٧ پر لکھا ہے کہ ’’یہ حیلہ اس وقت حیلہ شمار ہوتا ہے جب کہ واقعی تملیک ہو، اور مروجہ حیلۂ تملیک میں واقعی تملیک نہیں ہوتی، اور حیلۂ اسقاط عبادت (مروجہ حیلۂ تملیک کی طرح ہی حیلۂ اسقاطِ عبادت ہوتا ہے، یعنی جس طرح طلبہ کو مالک بنا کر حیلۂ تملیک کیا جاتا ہے)میں مفتیان کرام یہ فتویٰ دے چکے ہیں کہ وہ محض ڈھونگ ہے، اس سے نماز، روزے معاف نہیں ہوتے، کیونکہ اس میں واقعی تملیک نہیں ہوتی، اس لئے اربابِ مدارس کے لئے لمحۂ فکر یہ پیدا ہوا کہ اس مخمصہ سے نکلنے کی تدبیر کیا کی جائے؟ پھر اس عبارت کے بعد مسئلۂ توکیل کو بیان کیا ہے گویا انہوں نے اس مروجہ حیلہ کوڈھونگ سے تعبیر کیا ہے، اس میں فقہاء نے زیادہ تر دوسرے نمبر والے حیلے کو ترجیح دی ہے ھذا ما عندی، واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں