سوال
مفتی صاحب السلام علیکم صورت مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص نے گاڑی آٹھ لاکھ روپے کی لی ہے اور یہ پیسے ایک سال کے بعد دے گا اور اب اس نے گاڑی لے کے دوسرے کو بیچ دی پانچ لاکھ کی، اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا یہ بیع و شراء ٹھیک ہوگی یا نہیں؟
سائل: ذاکر اللہ کراچی پاکستان
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
اگر کسی شخص نے کوئی چیز خرید لی اور ابھی قیمت ادا نہیں کی، لیکن مالکانہ حقوق کے ساتھ خرید وفروخت کا معاملہ ہو چکا ہے تو خریدنے والا اس کا مالک بن جاتا ہے، اور اس کی قیمت خریدار کے ذمہ دین ہوتی ہے، اب اگر خریدار اس کو کسی اور شخص کو فروخت کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے آگے فروخت کرنا جائز ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے۔
لا خلاف بین أصحابنا فی أن أصل القبض یحصل بالتخلیة فی سائر الأموال۔ (بدائع الصنائع، کتاب البیوع / تفسیر التسلیم والقبض ۴/۴۹۸زکریا)
شرح المجلہ میں ہے
إن المشتری إذا قبض المبیع بإذن البائع صار مالکاً لہ۔ (شرح المجلة ۱/۱۲۸)
صورت مسئولہ میں جب اس نے گاڑی آٹھ لاکھ روپے کی لی ہے تو مالک بن گیا چاہے یہ پیسے ادھار ہو اس کے لئے یہ گاڑی دوسرے کو پانچ لاکھ بیچ دینا درست ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں