سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں۔
١/کہ پلاسٹک کی ٹوپی میں نماز پڑھنا کیسا ہے۔
٢/ٹوپی نہ ہونے کی صورت میں رومال سر پر رکھ کر نماز پڑھنا کیسا ہے۔
٣/اگر کپڑے کی ٹو پی نہ ہو تو رومال یا پلاسٹک کی ٹوپی یا ننگے سر نماز پڑھنا ان تین صورتوں میں کون سی بہتر ہے؟
شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں عنایت ہوگی۔
سائل: عبدالواجد سھارنپور
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
نماز عبادات میں سب سے افضل اور اہم ترین فريضہ ہے، نمازی بحالتِ نماز اللہ تعالیٰ سے سرگوشی کرتاہے یہاں تک کہ آخرت میں بھی سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا لہذا اس کو ادا کرنے میں حد درجہ آداب کا اہتمام کرنا چاہئے اور منجملہ نماز کے آداب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ٹوپی یا عمامہ پہن کر نماز پڑھی جائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا یہی معمول تھا، اور آج تک سلف صالحین کا بھی یہی طریقہ رہا ہے۔
اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کے دربار میں ایسے لباس میں حاضر ہونا ممنوع ہے جس لباس کو پہن کر معزز مجمع یا مجلس میں حاضر ہونے میں ناگواری ہوتی ہو یا اس کو باعثِ عیب و عار سمجھا جاتا ہو، آدمی کو اللہ رب العزت کے سامنے اچھے لباس اور اچھی ٹوپی میں کھڑا ہونا چاہیئے اور پلاسٹک کی ٹوپی ہمارے معاشرہ میں اچھی نہیں سمجھی جاتی ، عام طور پر آدمی ایسی ٹوپی پہن کر شریف ومعزز لوگوں کی مجلس میں جانا بھی پسند نہیں کرتا، اور پلاسٹک کی ٹوپی پہن کر معزز مجمع اور تقریب میں جانے کو معیوب اور باعثِ عار سمجھا جاتا ہے، اس لیے پلاسٹک کی ٹوپی پہن کر نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی اور خلاف اولی اس لیے ایسی ٹوپی پہن کر نماز پڑھنا اگرچہ جائز ہے، لیکن اس سے نماز مکروہ ہوجائے گی۔
قرآنِ کریم میں ہے: یَا بَنِیْ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ الأعراف:۳۱)
اسی طرح شامی میں ہے۔
وصلاتہ في ثیاب بذلة یلبسہا في بیتہ ومہنة، أي: خدمة إن لہ غیرہا وإلا لا۔ قولہ: وصلاتہ في ثیاب بذلة۔۔۔ قال في البحر: وفسرہا في شرح الوقایة بما یلبسہ في بیتہ ولا یذھب بہ إلی الأکابر، والظاہر أن الکراہة تنزیہیة۔ (الدر المختار مع رد المحتار، ٢/٤٠٧ ط: مکتبة زکریا دیوبند)
اسی طرح مجمع الأنہر میں ہے۔
وفي ثیاب البذلۃ۔۔۔۔۔ وہي ما یلبس في البیت ولا یذہب بہ إلی الأکابر؛ لأنہا لا تخلو عن النجاسة القلیلة وعن الأوساخ الکریہة (مجمع الأنہر، ١/١٨٨ ط: دار الکتب العلمیة بیروت)۔
اسی طرح مراقي الفلاح مع حاشیة الطحطاوي ہے۔
ورأی عمر رضي اللہ عنہ رجلاً فعل ذلک فقال: أرأیت لو کنت أرسلتک إلی بعض الناس أکنت تمر في ثیابک ہذہ؟ فقال: لا، فقال عمر رضي اللہ عنہ: اللہ أحق أن تتزین لہ (مراقي الفلاح مع حاشیة الطحطاوي ص: ۳۵۹، ط: دار الکتب العلمیہ بیروت)
اسی طرح رومال باندھنے کی صورت میں ضروری ہے کہ پورا سر دھنپ جائے اگر آس پاس کپڑا باندھ دیا جائے اور درمیان میں کھلا چھوڑدیا جائے تو مکروہ ہے، یعنی نماز پڑھتے ہوئے سر پر ٹوپی کے بجائے اس طرح رومال باندھنا کہ سر کا درمیانی حصہ کھلا رہے مکروہ ہے۔
فتاوی خانیہ میں ہے
ویکرہ الاعتجار وھو ان یشد راسہ بالمندیل و یترک وسط راسہ (باب الحدث فی الصلاة وما یکرہ فیھا وما لا یکرہ، ١/٥٧)
نماز میں لااُبالی پن میں یا موجودہ زمانہ کے فیشن کی وجہ سے یا کاہلی، سستی اور لاپرواہی کی بنا پر ٹوپی کے بغیر ننگے سر نماز پڑھتا ہے تو یہ پڑھنا مکروہِ تنزیہی یعنی خلافِ اولی ہے، البتہ اگر کبھی کسی کے پاس ٹوپی نہ ہو، اور فوری طور پر کسی جگہ سے میسر بھی نہ ہوسکتی ہو، تو اس صورت میں ننگے سر نماز پڑھنے کی وجہ سے کراہت نہیں ہوگی، اور اگر اللہ کے سامنے اپنی عاجزی اور تذلُّل دکھانے کے لیے بغیر ٹوپی کے نماز پڑھتا ہے تو درست ہے،
الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے۔
وصلاته حاسراً أي كاشفاً رأسه للتكاسل ولا بأس به للتذلل ۔۔۔۔۔ قوله: للتكاسل أي لأجل الكسل، بأن استثقل تغطيته ولم يرها أمراً مهماً في الصلاة فتركها لذلك، وهذا معنى قولهم تهاوناً بالصلاة وليس معناه الاستخفاف بها والاحتقار؛ لأنه كفر، شرح المنية. قال في الحلية: وأصل الكسل ترك العمل لعدم الإرادة، فلو لعدم القدرة فهو العجز۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٢/٤٠٧)
صورت مسئولہ میں اوپر کی تفصیل کے مطابق
(١) پلاسٹک کی ٹوپیاں عام طور پر اچھی نہیں سمجھی جاتیں اور نماز کے علاوہ عار اور شرم کی وجہ سے عام حالات میں لوگ یہ ٹوپیاں نہیں پہنتے اس لیے پلاسٹک کی ٹوپیاں پہن کر نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی اور خلافِ اولی ہے
(٢) رومال یا کسی کپڑے کو باندھ کر نماز ادا کریں کو پورا سر دھنپنا ضروری ہے اگر بیچ کا حصہ کھلا رہے گا تو نماز مکروہ تنزیہی ہوگی
(٣) رومال باندھ کر نماز پڑھنا افضل ہے، البتہ نماز مذکورہ ساری صورتوں میں درست ہوجائے گی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں