ہفتہ، 12 فروری، 2022

کسی صحابی کو بڑا بھلا کہنے کی صورت میں شرعی حکم

 سوال

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎۔۔۔

کسی ایک یادو صحابی کی شان میں گستاخی کرنے والاشخص کیاکافر ہوگا؟۔۔۔ایک عالم نے بیان کیاہے کہ ایک ادنی سے ادنی صحابی کاگستاخ بھی کافر ہوگا۔۔اس کے برعکس دوسرے آدمی نے کہاہے، ایسا نہیں ہے یعنی کافر نہیں ہوگا بلکہ فاسق اور گمراہ ہوگا۔

آپ بیان فرماٸیں کہ صحیح مسٸلہ کیاہے اور بالخصوص یہ بھی بتاٸیں کہ ان عالم نے جو قول بیان کیاہے کہ ایک ادنی سے ادنی الخ اس ضابطہ کو بھی اہل السنة والجماعة کے علماۓ کرام میں سے کسی نے بیان کیاہے یا نھیں اگر بیان کیاہے تو اس قول کاحکم بھی بتاٸیں۔۔۔کیا وہ قابل قبول اور قابل  بیان ہوگا؟ بینوا بالدلیل اجرکم المولی الجلیل

سائل: حارث جمالی ہریدوار


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اس امت کی وہ حسین ہستیاں ہے جن کے وسیلے سے اللہ نے امت کو قرآن و حدیث، اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہم تک پوری امانت کے ساتھ پہنچائی ہے، اور وہ اسلام کے اولین جانثار ہیں، جن کی تعریف خود اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمائی ہے اور جن کی اللہ تعالی تعریف فرمائے، ایسی برگزیدہ ہستیوں میں کسی ایک کو بھی  برا بھلا کہنا اور ان کو تنقید و ملامت کا نشانہ بنانا یقینا موجب فسق و ضلالت ہے؛ لیکن اس سے آدمی کافر ومرتد نہیں ہوتا بشرطیکہ اس سب و شتم وغیرہ کو بعض اہل تشیع کی طرح حلال یا کارثواب نہ سمجھتا ہو، اور اسی طرح کسی صحابی کو کافر نہ سمجھتا ہو۔


شامی میں ہے۔

وسب أحد من الصحابة وبغضه لا يكون كفراً ، لكن يضلل(کتاب الجہاد باب المرتد: ۶/۳۷۶-۳۷۸، ط: زکریا دیوبند)


رسائل ابن عابدین میں ہے۔

عن المنلا علی القاری: ... وأما من سب أحدا من الصحابة فہو فاسق مبتدع بالإجماع إلا إذا اعتقد أنہ مباح أو یترتب علیہ ثواب کما علیہ بعض الشیعة أو اعتقد کفر الصحابة فإنہ کافر بالإجماع... إھ  فاذا سب احدمنهم فينظرفان كان معه قرائن حالية على ماتقدم من الكفريات فكافر والاففاسق وانما يقتل عند علمائنا سياسة لدفع فسادهم وشرهم۔(مجموعہ رسائل ابن عابدین۔ ١/٣٦٧)


شامی میں دوسری جگہ منقول ہے۔

بخلاف ما إذا كان يفضل علياً أو يسب الصحابة؛ فإنه مبتدع لا كافر، كما أوضحته في كتابي تنبيه الولاة والحكام علی أحكام شاتم خير الأنام أو أحد الصحابة الكرام عليه وعليهم الصلاة والسلام۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٤/١٣٥) واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: