ہفتہ، 5 فروری، 2022

زناکے حمل کو گرانے کا حکم

 سوال

السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ مسئلہ یہ کہ ایک مسلم عورت کے کسی سے ناجائز تعلقات ہوگئے اور اور اس بیچ حمل ٹہر گیا اور وہ مرد بھاگ گیا اس عورت کو چھوڑ کر اور حمل کو 5 پانچ مہینے ہوگئے اور وہ عورت اب اسقاط کرانا چاہتی ہے کیا اسقاط کراسکتی ہے؟ دوسری صورت اس عورت سے ایک غیر مسلم جوڑا جس کی کوئ اولاد نہی ہے کہتا ہے کہ اس بچہ کو پیدا کرکے ہمیں دے دو ہم تمہیں پیسے دیں گے کیا اس صورت میں بچہ اس غیر مسلم کو دے سکتے ہیں تاکہ بچہ ضائع نہ ہو۔

سائل محمد ارشاد بھوپال


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


فقہاء کی عبارات سے عورت کے پیٹ میں جو حمل ٹھہرتا ہے اس کی تین صورتیں معلوم ہوتی ہے۔


(١) حمل کی ابتداء ہو یعنی ابھی حمل کو ایک مہینے یا اس سے بھی کم مدت ہوئی ہے اور اسقاط کا مسئلہ ہے تو عذر کی صورت میں اس کی گنجائش ہے۔


(٢) حمل جم گیا ہے لیکن چار مہینے سے کم کا ہے یعنی ۱۲۰؍ دن کی مدت کے اندر اندر ہو تو اسقاط حمل بلا عذر شدیدہ کے جائز نہیں ہے، چاہے حمل حلال نطفہ سے ہو یا زنا کاری کی وجہ سے نطفہ ٹھہر گیا ہو، دونوں صورتوں میں جائز نہیں ہے ہاں اگر حاذق اور ماہر فن ڈاکٹر اس کے اسقاط کا حکم کریں تو اسقاط حمل کی گنجائش ہے۔


(٣) حمل مکمل ہوچکا ہو یعنی اس پر ۱۲۰؍ دن پورے ہوجائے تو اب اس کے گرانے کی گنجائش نہیں ہوگی کیونکہ جب حمل چار ماہ یعنی ١٢٠ دن کا ہوجاتا ہے تو بچے کے اعضاء بننا شروع ہوجاتے ہیں اور اللہ رب العزت اس میں روح ڈال دیتا ہے، لہذا وہ نفس محترم کے حکم میں ہوجاتا ہے اور زندہ آدمی کی طرح اس کی بقاء و حفاظت کرنا واجب اور ضروری ہوجاتاہے، جس کی وجہ سے ایسے حمل کا اسقاط حرام ہے۔


ہاں چار مہینے کا ہوجائے تو صرف ایک صورت میں اس کو گرانے کی گنجائش نکل سکتی ہے وہ یہ کے ماہر اور تجربہ کار ڈاکٹر کی یہ رپورٹ ہو کہ اگر بچہ کو نہیں گرایا تو ماں کی جان چلی جائے گی اور ماں کی جان بچانا بھی ضروری ہے اس لئے اھون البلیتین کے قاعدے کو سامنے رکھ کر چار مہینے گزرنے کے بعد بھی بچے کو گرانے کی گنجائش نکالی جاسکتی ہے۔


شامی میں ہے۔

وقالوا : یباح إسقاط الولد قبل أربعۃ أشہر ولو بلا إذن الزوج۔۔۔۔ وہو محمولۃ علی حالۃ العذر۔ (الدر المختار مع الشامي، کتاب النکاح / مطلب في حکم سقاط الحمل  ٤/٣٣٥ زکریا)


فتاویٰ عالمگیری میں ہے۔

العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقہ کالشعر والظفر ونحوہما لایجوز، وإن کان غیر مستبین الخلق یجوز وخلقہ لا یستبین إلا بعد مائۃ و عشرین یوما۔ (ہندیہ، الباب الثامن عشر فی التداوی والمعالجات زکریا جدید ۵/٤١٢)


شامی میں ہے۔

ویکرہ أن تسقی لإسقاط حملہا، وجاز لعذر حیث لایتصور، ۔۔۔ وقدروا تلک المدۃ بمائۃ و عشرین یوما و جاز لأنہ لیس بآدمی وفیہ صیانۃ الآدمی۔۔۔ فی القنیۃ: أن یظہر لہ شعر أو إصبع أو رجل أو نحو ذٰلک۔ (در مختار مع الشامی، کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ، زکریا ۹/٤۱۵،)


الفتاویٰ الہندیۃ میں ہے۔

العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقہ کالشعر والظفر ونحوہما لا یجوز، وإن کان غیر مستبین الخلق یجوز …، امرأۃ مرضعۃٌ ظہر بہا حبل وانقطع لبنہا وتخاف علی ولدہا الہلاک ولیس لأبي ہٰذا الولد سعۃ حتی یستأجر الظئر یباح لہا أن تعالج في استنزال الدم ما دام نطفۃ أو مضغۃ أو علقۃ لم یخلق لہ عضو وخلقہ لا یستبین إلا بعد مائۃ وعشرین یومًا۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الباب الثامن عشر ٥/٣٤٥ زکریا)


الموسوعة الفقهية الكوتية میں ہے:

وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لا تأثم إثم القتل۔ (الموسوعة الفقهیة الکویتیة۳۰/ ۲۸۵)


صورت مسئولہ میں چونکہ بچہ پانچ ماہ کا ہوچکا ہے لہذا اس کو گرانا حرام ہے اس کو گرانے کی صورت میں حمل گرانے والا ڈاکٹر اور وہ عورت جس کے پیٹ میں حمل ہے دونوں گنہگار ہوں گے۔


اور ولدُ الزنا کی نسبت اس کی ماں اور اس کے اہلِ خانہ کی طرف ہوگی، اس لیے کہ زانی کا نطفہ فاسد ہوتا ہے اس کی طرف اولاد کو منسوب نہیں کیا جاسکتا۔


شامی میں ہے۔

قالوا فی حرمة بنتہ من الزنا إن الشرع قطع النسبة إلی الزانی لما فیہا من إشاعة الفاحشة فلم یثبت النفقة والإرث لذلک، وہذا لا ینفی النسبة الحقیقیة لأن الحقائق لا مرد لہا فمن ادعی أنہ لا بد من النسبة الشرعیة فعلیہ البیان.[الدر المختار وحاشیة ابن عابدین(شامی ٤/٣٧١، ط:زکریا، دیوبند)


اور اس کی پرورش بھی مسلمان عورت کے ذمہ ہوگی وہ بچہ اس کافر کو نہیں دیا جائے گا اس لئے کہ بچہ پیدائشی مسلمان ہوتا ہے، اور غیر مسلم کو دینے میں بچے کا دینی نقصان ہے۔


 مشکوہ میں ہے۔

عن أبي ہریرة قال، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”ما من مولود إلا یولد علی الفطرة؛ فأبواہ یہوّدوانہ أو ینصّرانہ أو یمجّسانہ۔ (مشکاة المصابیح ص۔ ۲۱)


الموسوعۃ الفقہیہ میں لکھا ہے کہ پرورش کرنے والا ایسا فاسق ہو کہ اس کے فسق کا ضرر بچہ پر پڑے اور بچہ کی تربیت خراب ہونے کا اندیشہ ہو تو اس کو بچہ دینا درست نہیں ہے، اور یہ تو کافر ہے جہاں بچہ کا ضرر ہی ضرر ہے لہذا اس کو دینا ہی درست نہیں ہے۔


الموسوعۃ الفقهیۃ الكويتیۃ میں ہے:

"الأمانة في الدين، فلا حضانة لفاسق، لأن الفاسق لا يؤتمن، والمراد: الفسق الذي يضيع المحضون به، كالاشتهار بالشرب، والسرقة، والزنى واللهو المحرم، أما مستور الحال فتثبت له الحضانة. قال ابن عابدين: الحاصل أن الحاضنة إن كانت فاسقة فسقا يلزم منه ضياع الولد عندها سقط حقها، وإلا فهي أحق به إلى أن يعقل الولد فجور أمه فينزع منها۔ (الحضانة، ما يشترط فيمن يستحق الحضانة ، ١٧/٣٠٦ ط:طبع الوزارة)۔ واللہ اعلم بالصواب


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: