بدھ، 23 فروری، 2022

شادی سے پہلے میلاد کی دعوت کا شرعی حکم سوال نمبر ١٧٥

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کیافرماتےہیں علماء کرام و مفتیان متین مسلۂ ذیل کے بارےمیں، آج ایک عام سارواج چل پڑا ہے کہ شادی سے ایک دن پہلے میلاد کروانے کا جنکو اصلاح معاشرہ کا نام دے کر کرواتے ہیں۔

مفتی صاحب  معلوم یہ کرنا  ہے کہ کیارسمی میلاد   کروانا یا اس میں شرکت یا کھانا کھانا درست ہے یا نہیں؟ سہل الفاظ میں محقق ومدلل روایات وآثار کے  روشنی میں جواب عنایت فرمائیے حضور  والا کیلے ہم سب دعا گو ہیں۔

سائل: محمد ریاض


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اپنی ظاہری و باطنی وسعتوں اور پنہائیوں کے لحاظ سے کوئی شخصی نہیں ہے، بلکہ ایک عالم گیر اور بین الاقوامی شخصیت ہے، جو کسی شخص واحدکا دستور زندگی نہیں، بلکہ جہانوں کے لیے ایک مکمل دستور حیات ہے،

زندگی میں کسی بھی چیز کی پیروی کرنے کے لیے ایک مکمل شخصیت کا نمونہ ہونا ضروری ہے، اور ہم مسلمان ہے اور اسلام کی پیروی کے لئے ہمارے سامنے ایک مکمل شخصیت کا نمونہ موجود ہے اور وہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہے، جن کی سنت یعنی آپ کی شریعت و طریقہ پر عمل پیرا ہونا اور ان کی بتائی ہوئی شریعت و طریقت پر چلنا ہی ہر مسلمان پر چلنا ضروری ہے۔


لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو جو تعلیمات دیں ان میں بھی بڑے واضح انداز میں اپنی پیروی کو امت کے لیے لازم قرار دیا، حضرت عرباض بن ساریہ کی روایت میں تصریح ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، فعلیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھدیین، عضوا علیھا بالنواجذ، (مستدرک حاکم، وابن ماجہ حدیث نمبر ٤٢)


جس کا مطلب ہے میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ کو لازم پکریں، اسی طرح اصول فقہ کی مشہور ومعتبر کتاب اصول الشاشی میں ہے، والسنۃ عبارۃ عن الطریقۃ المسلوکۃ المرضیۃ فی باب الدین سواء کانت من رسول ﷲ ﷺاو من الصحابۃ رضی اﷲ عنہم ۔ قال علیہ الصلوٰۃ والسلام علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین عضوا علیھا بالنواجذ۔ (اصول الشاشی ص١٠٤ البحث الرابع فی القیاس فصل فی الفرض)

یعنی سنت اس طریقۂ مرضیہ مسلوک فی الدین کوکہتے ہیں جس پر آنحضرت کا یا آپ کے صحابہ کا عمل ہو ۔آنحضرت کاارشاد ہے ۔ میرے طریقہ کو اور میرے بعد خلفاء کے طریقہ کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رکھو ٍ

حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اﷲ لکھتے ہیں ۔ وبحقیقت سنت خلفاء راشدین ہم سنت پیغمبر است حقیقت یہ ہے کہ خلفاء راشدین کی سنت بھی پیغمبر علیہ السلام کی سنت ہے (اشعۃ اللمعات ج۱ ص ۱۳۱  الاعتصام بالکتاب والسنۃ)

محدث ملا علی قاری رحمہ اﷲ تحریر فرماتے ہیں کہ خلفائے راشدین نے درحقیقت آنحضرت ہی کی سنت پر عمل کیا ہے فعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء (الراشدین )فانھم لم یعملوا الا بسنتی(مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ١/٢٤٢ ملتانی)


مسؤلہ صورت میں سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ یہ اللہ کے رسول و اصحاب رسول سے ثابت ہے یا نہیں آج کل شادیوں میں جو رواج عام ہورہے جیسے مذکورہ سوال میں شادی سے ایک دن پہلے میلاد کروانے کا جنکو اصلاح معاشرہ کا نام دے کر کرواتے ہیں، اور دعوت وغیرہ ہوتی ہے اس کو ہمارے نبی اور اصحاب رسول کی زندگی سے پرکھیں کہ کیا یہ آپ سے یا آپ کے اصحاب سے ثابت ہے۔


صحابہ کی شادیاں تو اتنی سادہ ہوتی تھی کہ بسااوقات آپ کو بھی ان کی شادی کا علم نہیں ہوتا تھا، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بہت ہی مالدار صحابی تھے آپ کا نکاح ہوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کانوکان خبر تک نہ ہوئی اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اتنا فرمایا کہ ولیمہ ضرور کرو۔ صحابہ کرام میں ایسی مثالیں بہت ملتی ہے کہ خود نبی کریم نے انکی شادیاں سادگی سے کروائی۔


حضور کے ایک خادم تھے ربیعہ بن کعب ان سے ایک بار رسول نے پوچھا کہ آپ نے شادی کی تو انہوں نے فرمایا نہیں اپ نے کل تین بار پوچھا تو کہا کہ نہیں کی انہوں نے پھر کہا یا رسول اللہ میں انتہائی غریب ہوں مجھ سے کون شادی کرے گا؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا جاؤ فلاں قبیلہ میں اور کہنا میں نے شادی کروانے کے لیے بھیجا ہے۔ وہ گئے اور پورا واقعہ بیان کیا تو قبیلہ والوں نے انتہائی سادگی کے ساتھ انکی شادی کروائی۔


شادی میں سادگی اپنانا، زائد اخرجات، جاہلانہ رسومات اورفضول خرچیوں سےاجتناب کرنا شرعاً مطلوب ہے، اس بارے میں معیار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم کےاقوال وافعال ہیں ۔


چنانچہ ارشادنبوی ہے:

ان اعظم النکاح برکۃ ایسرہ مؤنۃ۔ (مشکوٰۃ ص:۲۶۸)

یعنی جوشادی جتنی سادگی اورکم اخرجات کےساتھ ہوگی وہ اتنی ہی زیادہ بابرکت ہوگی ۔


پھرآپنے اپنےطرزِ عمل سے اس کی اچھی طرح وضاحت بھی فرمادی کہ نکاح میں  سادگی اس طرح ہوکہ  نہ تو اس سےپہلےمنگنی مہندی ابٹن وغیرہ کی رسومات  ہوں اور نہ ہی بہت لمبے چوڑے ولیمےاوروداع کی دعوتیں ہوں ،بلکہ رخصتی کےبعد حسبِ موقعہ اور حسبِ حیثیت  ولیمہ کی دعوت  کرکے عزیز و اقارب کو اس خوشی میں شریک کرلیا جائے،آپ کی ذات ہمارےلئےاسوہ حسنہ ہے۔


لہذا ہرشخص حسبِ ہمت اورطاقت اس سنت کو زندہ کرنے کی سعی کرے، اور جاہلانہ رسومات سے خود بھی اجتناب کرے اور دوسروں کوبھی اس سے دور رکھے، سوال میں جو میلاد کی رسم ہے اس کو ضروری سمجھ کر کریں تو شرعاً درست نہیں ہے نہ اس کی دعوت میں شرکت جائز ہے اور اگر ضروری نہ سمجھے بلکہ بحیثیت خرافات کے کریں تو بھی اجتناب بہتر ہے کیوں کہ یہ سب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: