سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ
کیا سنت غیر مؤکدہ میں قعدہ اولیٰ میں تشہد کے بعد درود شریف پڑھی جاتی ہیں یا نہیں اور تیسری رکعت کے شروع میں ثناے پڑھی جاتی ہیں یا نہیں اور کیا چاروں رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد کوئ اور سورت ملانا ضروری ہے، اسکا مدلل جواب دے شکریہ کا موقع فراہم کرے
سائل: محمد صادق کمال پور
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
سنتیں دو طرح کی ہے ایک سنت مؤکدہ اور دوسری سنت غیر مؤکدہ۔
سنت مؤکدہ میں پہلے تشہد میں درود شریف پڑھنے کی صورت میں فقہاء نے سجدہ سہو کو واجب قرار دیا ہے۔
یعنی سنتِ مؤکدہ کے پہلے قعدہ میں صرف تشہد ہی پڑھا جائے گا، تشہد پڑھنے کے فوراً بعد تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہونا واجب ہے، اگر درود شریف اور دعا یا صرف درود شریف پڑھنے کی وجہ سے تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہونے میں تاخیر ہوجائے تو سجدہ سہو کرنا لازم ہوگا، اور تیسری رکعت میں ثنا بھی نہیں بڑھی جائے گی۔
اور سنت غیر مؤکدہ اور نفل میں پہلے تشہد میں بھی درود وغیرہ بڑھنے کو فقہاء نے مستحب قرار دیا ہے۔
یعنی ایک سلام سے پڑھی جانے والی چار رکعت سنتِ غیرمؤکدہ اور نفل نماز کے پہلے قعدہ میں التحیات کے ساتھ درود شریف اور دعا پڑھنا بہتر اور افضل ہے، اور فقط التحیات پڑھی درود شریف اور دعا نہ پڑھے تو بھی درست ہے نماز ادا ہوجائے گی، البتہ سنت غیر مؤکدہ اور نوافل میں ہر دو رکعت کی حیثیت مستقل نماز کی ہے، اس لیے افضل یہ ہے کہ ہر قعدہ میں تشہد کے ساتھ ساتھ درود بھی پڑھے، اور ہر قعدہ کے بعد اگلی رکعت میں ثناء اور تعوذ بھی پڑھے۔
اسی طرح فرائض کے علاوہ ساری نمازوں میں ہر رکعت کے اندر سورۂ فاتحہ کے ساتھ کسی سورت کا ملانا واجب ہے، لہٰذا اگر سنتِ مؤکدہ یا کسی بھی نفل کی تیسری یا چوتھی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورت پڑھنا بھول گیا تو سجدہ سہو واجب ہوگا۔
الدر المختار مع الشامی میں ہے۔
ولايصلى على النبي صلى الله عليه وسلم في القعدة الأولى في الأربع قبل الظهر والجمعة وبعدها ولو صلى ناسياً فعليه السهو، وقيل: لا، شمني ولا يستفتح إذا قام إلى الثالثة منها لأنها لتأكدها أشبهت الفريضة وفي البواقي من ذوات الأربع يصلي على النبي صلى الله عليه وسلم ويستفتح ويتعوذ ولو نذراً؛ لأن كل شفع صلاة وقيل لايأتي في الكل وصححه في القنية۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٢/٤٥٦)
حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:
و إذا قام للشفع الثاني من الرباعية المؤكدة لايأتي في ابتداء الثالثة بدعاء الاستفتاح كما في فتح القدير، وهو الأصح كما في شرح المنية، لأنها لتأكدها أشبهت الفرائض فلاتبطل شفعته ولا خيار المحيرة ولايلزمه كمال المهر بالانتقال إلى الشفع الثاني منها لعدم صحة الخلوة بدخولها في الشفع الأول ثم أتم الأربع كما في صلاة الظهر بخلاف الرباعيات المندوبة فيستفتح ويتعوذ ويصلي على النبي صلى الله عليه وسلم في ابتداء كل شفع منها وقال في شرح المنية: مسألة الاستفتاح ونحوه ليست مرويةً عن المتقدمين من الأئمة وإنماهي اختيار بعض المتأخرين ( كتاب الصلاة، فصل في بيان النوافل، ٣٩٢ ٣٩١ /١)
شامی میں ہے۔
نعم اعتبروا کون کل شفع صلاة علی حدة فی حق القراء ة احتیاطًا إلی آخر ما فی ہذہ الصفحة وما یلیہا (الدر لمختار مع رد المحتار ٤٥٧ ٤٦٥/ ٢)
الفتاوى الهندية میں ہے۔
وتجب قراءة الفاتحة وضم السورة أو ما يقوم مقامها من ثلاث آيات قصار أو آية طويلة في الأوليين بعد الفاتحة كذا في النهر الفائق وفي جميع ركعات النفل والوتر. هكذا في البحر الرائق۔ (الفتاوى الهندية ١/٧١ ط دارا لفكر)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں