سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
مسئلہ یہ ہےکہ کسی نے منت مانی کہ میرا کوئی کام یا فلاں کام ہو جائے تومیں تین مہینے کے روزے رکھوں گی لیکن اس کو شوگر بھی ہے بی پی بھی ہے روزے کچھ اس نے رکھے کچھ نہیں رکھے تو کیا کرنا پڑے گا اور اس نے منت مانی ہے تو اس کا کفارہ کا کس طریقے سے ادا ہو رہنمائی فرمائیں
سائل: عبدالحی سالک تلواڑی اورنگ آباد مہاراشٹر
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
نذر کے لیے زبان سے تلفظ ضروری ہے، لہٰذا اگر زبان سے مذکورہ نذر کا تلفظ کیا تھا تو صورتِ مسئولہ میں نذر ماننے سے نذر ہوگئی ہے ،اگر کسی نے تین مہینے روزہ رکھنے کی نذر مانی ہو تو اس پر تین مہینے روزے رکھنا لازم ہوگا اور جب تک روزے پر قدرت ہو اس وقت تک روزے کے بدلہ فدیہ دینے کی گنجائش نہیں ہوگی،
البتہ اگر دائمی بیماری کی وجہ سے روزے رکھنے کی طاقت بالکل ختم ہوجائے اور مستقبل میں دوبارہ روزے پر قادر ہونے کی امید نہ رہے تو اس صورت میں ہر روزے کے بدلہ ایک فدیہ صدقہ فطر کی مقدار دینا لازم ہوگا، اور اگر زندگی میں کسی وجہ سے فدیہ نہ دے سکے تو وصیت کر کے جائے کہ میرے بعد میرے ترکہ میں سے مجھ پر واجب روزوں کا فدیہ ادا کردیا جائے۔
ایک روزے کا فدیہ ایک صدقۃ الفطر کے برابر یعنی تقریباً پونے دو کلو گندم یا اس کی موجودہ قیمت ہے۔
صورتِ مسئولہ میں روزہ رکھنے کی نذر ماننے کی صورت میں اس نذر کو پورا کرنا ضروری ہے، لہذا نذر کے جتنے روزے ذمہ میں لازم ہوں ان کو ادا کرنا ضروری ہے، اگر فی الحال ادا کرنے کی ہمت نہ ہو نے کی وجہ سے روزے نہ رکھ سکے ہوں تو بعد میں جب ہمت ہو تب ان روزوں کو رکھ لیں۔
تاہم اگر ضعف، بڑھاپے، یا کسی بیماری کی وجہ سے روزے رکھنے پر قدرت نہ اور آئندہ بھی امید نہ ہو تو ہر روزے کے بدلے صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر فدیہ ادا کردیا جائے، اور اگر تنگ دستی کی وجہ سے فدیہ کی ادائیگی پر بھی قادر نہ ہو تو باری تعالیٰ کے حضور استغفار کیا جائے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے۔
وإذا نذر أن یصوم کل خمیس یأتي علیہ فأفطر خمیسًا واحدًا فعلیہ قضاوٴہ کذا في المحیط ولو أخر القضاء حتی صار شیخًا فانیًا أو کان النذر بصیام الأبد فعجز لذلک أو باشتغالہ بالمعیشة لکون صناعتہ شاقة فلہ أن یفطر ویطعم لکل یوم مسکینًا ويطعم لكل يوم مسكيناً على ما تقدم، وإن لم يقدر على ذلك لعسرته يستغفر الله إنه هو الغفور الرحيم۔ (الفتاوى الهندية، ط: زکریا ۱/۳۰۲ )
المحيط البرهاني میں ہے۔
إذا نذر أن يصوم يوم كذا ما عاش، ثم كبر، وضعف عن الصوم يطعم مكان كل يوم مسكينا، وإن لم يقدر لعسرته يستغفر الله تعالى، فإن ضعف عن الصوم في ذلك اليوم لمكان الصيف كان له أن يفطر، وينتظر حتى إذا كان في الشتاء صام يوما مكانه؛ لأنه لو سافر في ذلك اليوم يفطر، ويصوم مكانه فكذا ههنا؛ لأن المرض والسفر كلاهما سبب العذر، ومن جنس هذه المسألة إذا قال: لله علي أن أصوم أبدا، فضعف عن الصوم لاشتغاله بالمعيشة كان له أن يفطر؛ لأنه لو لم يفطر يقع الخلل في جميع الفرائض، ويطعم كل يوم نصف صاع من الحنطة؛ لأنه متيقن أنه لا يقدر على قضائه أبدًا۔ (المحيط البرهاني ٢/٤٠٥ الباب السادس عشر فی صدقۃ الفطر، ط: دارالکتب العلمیہ)۔ واللہ اعلم بالصواب
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں