سوال
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
کسی بھی غیر مسلم کے لئے مغفرت کی دعا کرنا جائز نہیں ہے، قرآن میں ہے۔ مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَنْ یَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِینَ وَلَوْ کَانُوا أُولِی قُرْبَی۔(التوبة: ١١٣)
ترجمہ: یہ بات نہ تو نبی کو زیب دیتی ہے، اور نہ دوسرے مومنوں کو کہ وہ مشرکین کیلیے مغفرت کی دعا کریں، چاہے وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، جبکہ ان پر یہ بات پوری طرح واضح ہوچکی ہے کہ وہ دوزخی لوگ ہیں۔ (آسان ترجمہ قرآن)
البت غیر مسلم کی ہدایت کے لیے دعا مانگنا جائز ہے بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، حضرت عبداللہ بن عمرکہتے ہیں یقینا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی تھی کہ اے اللہ ابوجہل اور عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب دونوں میں سے جوتجھے زیادہ محبوب ہو اُس کے ذریعہ سے اسلام کو عزت وقوت عطافرما۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ کو زیادہ محبوب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہوئے ۔ ( مسند احمد )
لیکن جہاں تک کفر کی بات ہے تو اگر کوئی خود کفر کا اعتراف نہ کرے یا اس کے کفر پر کوئی قطعی دلیل نہ ہو یا اس کے قول و فعل میں شرعاً تاویل کا احتمال ہو تو کسی کو محض گمان یا اس کے کسی مبہم جملے کی بنا پر کافر کہنا جائز نہیں ہوگا۔
عالمگیر میں ہے۔
لو قال لیہودی أو مجوسي یا کافر یأ ثم إن شق علیہ کذا فی القنیة (فتاوی ہندیہ: ۵/۴۰۲، ط: اتحاد دیوبند)
شامی میں تو یہاں تک لکھاہے کہ اگر ایک طرح کفر کا احمال ہے اور کفر کا اقرار نہیں ہے تو اس احتمال کو کوئی صحیح مطلب بیان کر کے اس جملے کو کسی تأویل کی طرف پھیر دیں گے۔
شامی میں لکھا ہے کہ:
وفی الفتاوی الصغری: الکفر شیٔ عظیم فلا اجعل المؤمن کافرا متی وجدت روایۃ انہ لا یکفر اھـ وفی الخلاصۃ وغیرھا: اذا کان فی المسألۃ وجوہ توجب التکفیر ووجہ واحد یمنعہ فعلی المفتی ان یمیل الی الوجہ الذی یمنع التکفیر تحسینا للظن بالمسلم زاد فی البزازیۃ الا اذا صرح بارادۃ موجب الکفر فلا ینفعہ التأویل ح… والذی تحرر انہ لا یفتی بکفر مسلم امکن حمل کلامہ علی محمل حسن أو کان فی کفرہ اختلاف ولوروایۃ ضعیفۃ فعلی ھذا فأکثر الفاظ التکفیر المذکورۃ لایفتی بالتکفیر فیھا۔ واللہ اعلم بالصواب (شامی ۲۲٤/٤)
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں