سوال
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام و دین شرح متین مسئلہ ذیل کے بارے میں۔
ایک لڑکا لڑکی گھر سے بھاگ کر بغیر نکاح 5..6 مہینہ سے دونوں ایک ساتھ ہی رہ رہے ہیں لڑکی حاملہ ہوگئی ہیں اب دونوں کا کہنا کہ ہم نکاح کرنا چاہتے ہیں اب نکاح وضع حمل کے بعد ہوگا یا ابھی اور اس حمل کا کیا حکم ہے، مدلل جواب دیکر شکریہ موقع عنایت فرمائیں
سائل: ایوب خان پربھنی مہاراشٹر
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
نکاح سے پہلے مرد و عورت کو ایک ساتھ رہنا شرعاً درست نہیں ہے حرام ہے اور قبل النکاح وہ اجنبی کے حکم میں ہوتی ہے، اس سے اختلاط نا جائز ہوتا ہے، اور اس سے میاں بیوی کی طرح ہمبستری کرنا زنا کہلاتا ہے، زنا شریعت اسلامیہ میں سخت ترین گناہ ہے، اگر کسی نے ایسا کرلیا تو سخت گناہگار ہوگا لہذا وہ دل کی گہرائیوں سے توبہ و استغفار کریں۔
البتہ دونوں نکاح کرنا چاہے تو نکاح کرسکتے ہیں وضع حمل کے انتظار کی بھی ضرورت نہیں ہے، اور نکاح کے بعد فوراً وطی بھی حلال ہے۔
اور زنا کرنے کی وجہ سے حمل ٹھہر گیا ہے اور اس کے بعد زانی سے ہی نکاح کر لیا ہے تو اس بچہ کے نسب کے سلسلے میں دیکھا جائے گا کہ نکاح کے بعد چھ مہینے گزر گئے پھر اس حمل سے بچہ پیدا ہوا ہے یا چھ ماہ گزر نے سے پہلے ہی بچہ پیدا ہوگیا، اگر چھ مہینے مکمل ہو نے کے بعد بچہ ہوا تو وہ بچہ ثابت النسب ہوگا،
اور اگر شادی کے بعد چھ مہینے پورے نہیں ہوئے ہیں اور بچہ پیدا ہوگیا ہو تو پھر اس بچہ کا اس زانی سے نسب ثابت نہیں ہوگا وہ بچہ ولد الزنا ہی کہلائے گا۔
البتہ اگر زانی اس بچے کے باپ ہونے کا اقرار کرلیتا ہے اور زنا کا ذکر نہیں کرتا تو پھر اس بچے کا نسب اس سے ثابت ہوجائے گا۔
صورت مسئولہ میں اس کے لئے اس کے ساتھ نکاح کرنا جائز بلکہ بہتر ہے اور وضع حمل کے انتظار کی بھی ضرورت نہیں ہے، بچہ بعد نکاح کے چھ مہینے پورے ہونے بعد پیدا ہوا تو نسب ثابت ہوجائے گا اور اگر نکاح کے بعد چھ مہینے سے پہلے بچہ پیدا ہوا تو نسب ثابت نہیں ہوگا، ہاں اگر وہ زنا کا تذکرہ کئے بغیر بچہ کا دعویٰ کریں تو نسب ثابت ہو جائے گا۔
شامی میں ہے۔
لو نكحها الزاني حل له وطؤها اتفاقاً، والولد له ولزمه النفقة۔۔۔ (قوله: والولد له) أي إن جاءت بعد النكاح لستة أشهر، مختارات النوازل، فلو لأقل من ستة أشهر من وقت النكاح لايثبت النسب، ولايرث منه إلا أن يقول: هذا الولد مني، ولايقول: من الزنى، خانية. (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٤/١٤٢)
فتاوی تاتارخانیہ میں ہے
رجل زنی بامرأۃ وحبلت منه فلما استبان حملها تزوجها الذي زنی بها فالنکاح جائز…وإن جاءت به أي الولد لأقل من ستة أشهر لا یثبت النسب ولا یرث منه إلا أن یقول هذا الولد منی ولم یقل من الزنا۔ (الفتاوی التاتارخانیة: ٤/٣١٥ )
فتاوی عالمگیری میں ہے۔
لو زنی بامرأۃ فحملت ثم تزوجها فولدت إن جاءت به لستة أشهر فصاعدًا ثبت نسبه وإن جاءت به لأقل من ستة أشهر لم یثبت نسبه إلا أن یدعیه۔ (الفتاوى الهندیة، زکریا جدید: ١/٥٩١)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں